نمائندہ سماء کی جانب سے تحقیق کے بعد یہ خبر جھوٹی نکلی۔ سوشل میڈیا پر
دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ مردہ مینڈک ان ریسٹورنٹس میں بنائے جانے والے
برگرز اور شوارما میں استعمال کیے جانے تھے۔
اس کہانی کا کچھ حصہ صحیح ہے: پولیس نے ایک رکشہ کو روکا تھا جس میں 2
افراد 8 بوریاں لے جا رہے تھے۔ بوریوں کی تلاشی لینے پر اندر سے تقریبا 185
کلو یعنی 5 من مینڈک نکلے جن میں سے کچھ زندہ اور کچھ مردہ تھے۔ پولیس کے
مطابق شاید یہ مینڈک نایاب نسل کے تھے اس لیے رکشہ روکا تھا۔
اس کے بعد سے سوشل میڈیا پریہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ گدھے اور کتے کے
گوشت کے بعد لاہور کے شہریوں کو اب مینڈک کا گوشت بھی کھلایا جا رہا ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت وہ دونوں افراد مینڈکوں کو عبقری روڈ پر واقع
ایک لیبارٹری میں فروخت کے لیے لیکر جا رہے تھے جس کے بعد انہیں مختلف
میڈیکل یونیورسٹیوں میں فراہم کیا جانا تھا جہاؐں طالبعلم انہیں پریکٹیکل
کے لیے استعمال کرتے۔
|