سوتے لوگ

اتنے بڑے شہر میں فجر کی اذان کہیں بھی سنائی نہ دی گئی ہر طرف دھواں اٹھ رہا تھا کہیں آگ کے بھبھو کے اٹھ رہے تھے سڑکیں بلکل ویران تھیں سڑک پر کہیں اکا دکا لاش جس کی انتڑیاں باہر کو نکلی ہوئی ہوتیں کسی کا سر غائب ہوتا کہیں کس کسی عورت کی برہنہ لاش پڑی ہوتی اور کہیں کوی عورت سسک رہی ہوتی اور جسم پر دانتوں اور کوڑوں کے بے رحم نشانات ہوتے آنکھیں باہر کی طرف نکلی ہوئی ہوتیں
کہیں بچے ذبح کیے پڑے ہوتے جیسے زمین بھوکی ہو اور ان کے سر نگل گی ہو کہیں نومولود بچے ماوؤ ں کو پکار پکار کر ڈر سے سہم گئے ہو ں ابھی صبح صادق ہونے کو تھی کہ فلسطین کی ویران سڑک پر کچھ بکتر بند فو جی گا ڑ یا ں نمو دار ہوہیں لاشوں کو کچلتے ہوے سر خ ٹائروں کے نشانات چھوڑتی ہوی جا ر ہی تھیں جس سے سرک کا نیا سرخ رنگ نمودار ہو رہا تھا
کہ اچانک ایک پکی عمارت کے سامنے گاڑیاں رکیں اور فوجی نوجوان گاڑیوں سے اتر کر عمارت میں گھسنے کی کامیاب کوشش کرنے لگے جس میں کامیابی ان کا مقدر بنی عمارت سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دینےلگیں کچھ دیر بعد لاشوں کا انبار لگ گیا فلسطینی نوجوان اوندھے منہ زمین کے بل لیٹے مرے پڑے تھے بچوں کو ماوں سے جدا کر دیا گیا تھا
ماوں کے پستان کٹ چکے تھے
دو خوبصورت نوجوان لڑکیوں کو بچا لیا گیا تھا شاید وہ فوجیوں کے کسی کام آسکیں
ان کو بندوق کی نوک پے عمارت سے باہر لایا گیا بڑی بے دردی سے گا ڑی میں بٹھایا گیا
فائرنگ کا شور سن کر نا مکمل سا ہجوم اکٹھا ہو گیا جو مشتعل تھا اور بکتر بند گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے لگا جن میں بچے اور جوان شامل تھے بوڑھا شخص کوئی نہ تھا کیونکہ بوڑھے بھوک اور افلاس کی وجہ سے مر چکے تھے
ایک اسرائیلی فوجی نوجوان نے ہمت کرکے ہجوم میں سے ایک 9 سال کا فلسطین بچہ اٹھا لیا اور گاڑی کے آگے باندھ دیا جس سے ہجوم نے گاڑیوں پے پتھراو بند کر دیا فوجی بکتر بند گاڑیاں دو نوجوان لڑکیوں اور بچے سمیت اسرائیل کی جانب جاتی ہوئ نظر آئیں
جہاں سورج اپنی کرنیں پھیلا رہا تھا اور ہماری ہماری عزت نیلام ہورہی تھی
امت مسلمہ دیر تک سو رہی تھی
 

اسد علی بابر
About the Author: اسد علی بابر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.