یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار
بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰٰٰٰٰٰ ۃ دیں گے اور نیکی کا حکم دیں
گے اور بدی سے روکیں گے (الحج 41)
"کہو خدایا ، ملک کے مالک، تو جسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے
چاھے عزت دے جسے چاھے ذلیل کردے، ساری بھلائی تیرے اختیار میں ہے تو ہر چیز
پر قادر ہے(آل عمران :26 )
ہمارے آئیڈیل تو ہما رے پیغمبر حضرت محمدٌ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں
نے مدینے کے اندر اسلامی ریاست قائم کی اس حکومت کے سربراہ مملکت، کمانڈر
ان چیف،مقننہ، چیف جسٹس، داخلہ اور خارجہ یعنی وہ تمام امور جو مملکت چلانے
کے لئے ہوتے ہیں وہ رسولْ نے چلا کر دکھا دیئے تاکہ آئندہ مسلمان اس پر چل
کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں اللہ تعالٰی کی براہ راست ہدایات کی روشنی
میں یہ سب کام انجام پائے وہ اس لئے کہ آئندہ کوئی نبی نہیں آنے والا اور
اللہ کبھی بھی اپنی مخلوق کو ہدایت کے بغیر نہیں چھوڑتا یہی اس کی سنت کا
تسلسل ہے ۔ اللہ کے رسول انسان تھے ان کے رشتہ دار خاندان اور قبیلہ تھا
مگر رسولٌ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام معاملات کو بیلنس سے چلا کر
دکھایا حکومت سے انتہائی ضرورت کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں اٹھایا لھٰذا
کامیاب حکمران وہ ہیں جو اس پر عمل کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا مقام بنا
سکتے ہیں
رسولٌ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفائے راشدون نے حکومت کے معاملات اسی
طریقے پر چلائے جس طرح رسولٌ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات تھے۔رسولٌ
کے بعد خلفائے راشدون نے حکومت کے معاملات اسی طریقے پر چلائے جس طرح رسولٌ
کے احکامات تھے۔وہ بھی انسان تھے ان کی بھی دنیاوی ضروریات تھیں ان کے بھی
خاندان اور رشتہ دار تھے مگر دنیا گواہ ہے کہ حکومت اور ان معاملات میں ذرہ
برابر بھی بیلنس کو خراب نہیں ہونے دیا اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر صدیق
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ہے ان کی بیوی نے ایک دفعہ حلوہ بھی پیش کیا ، خلیفہ
اول نے دریافت کیا یہ فاضل پیسہ کہاں سے آیا ، کہنے لگیں میں نے روزانہ کے
خرچے سے بچایا ہے۔
خلیفہ اول نے اتنی رقم بیت المال سے کم لینی شروع کر دی۔ یہ ہے مسلمانوں کے
آئیڈیل کا معاملہ، اور موجودہ دور کے مسلمانوں حکمرانوں کے قصے ہم اخبارات
میں پڑھتے رہتے ہیں ویسے تو اسلامی دنیا خصوصًا مشرق وسطٰی کے حکمرانوں کے
متعلق بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر اس وقت جو دنیا کے سامنے نشانِ عبرت بنے
ہوئے ہیں ان میں سے کچھ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۔۔ تیونس کا ذکر۔۔ اس پر فرانسیسی صلیبیوں نے 1882 ء میں قبضہ کیا پھر پون
صدی تک اس پر حکمران رہے 1956ء میں اس نے آزادی حاصل کی۔ فرانسیسی زبان
سرکاری زبان قرار پائی اور ملک کو سیکولر بنا دیا گیا سیکولرازم کے مخالف
الغنوشی راژد سمیت دوسرے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے 1989 میں زین العابدین بن
علی فوج کے سربراہ نے حبیب بورقیبہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر ڈکٹیٹر شپ قائم
کر لی عام مسلمانوں پر حکومت کے دروازے بند کر دیئے لبرل اور سیکولر ہونے
پر فخر کیا جو اس کے مغربی آقاؤں کو پسند تھا اسلامی شعائر پر پابندی لگائی
، پردہ اسکارف، داڑھی پر پابندی ، شراب عام ،ماں باپ، بیٹا بیٹی، نوجوان
بھائی سب کا اکٹھے تالاب میں نہانے کا رواج، زنا عام یعنی یہود و نصارا کی
تمام خرابیوں کا رواج عام کیا اس پر امریکی وزیرَ خارجہ ہیلری کلنٹن کا
بیان کہ "تیونس جیسا ملک مسلمانوں کے لئے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے " اور
ہمارے سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف جب کیمپ ڈیوڈ سے واپس ہوئے تو جارج بش کی
ہدایت کے مطابق ترکی اور تیونس سے نئے سبق سیکھ کر آئے تھے زین العابدین بن
علی کی طرح اب مکافاتِ عمل کے تحت دنیا میں دربدر ہیں زین العابدین بن علی
کی بیوی کی آئس کریم کی خواہش کے لئے بوئنگ طیارہ موجود رہتا تھا، یہ عورت
ٹنوں سونا اور ڈالر لے کر فرار ہو گئی اور دوسری طرف کرپشن بدعنوانی غربت
مہنگائی پرنٹ الیکٹرونک میڈیا پر سنسر بے روزگاری، یہ ہیں موجودہ دور کے
مسلمان حکمران!
مصر کے حکمران، حسنی مبارک 70 لاکھ ڈالر اثاثوں کے مالک، 30 سال سے ملک پر
قابض، اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تجارت، یہودو نصاریٰ کے ہمنوا، لبرل
سیکولر نظامِِ حکومت ، مغرب کی طرز کا بے حیا معاشرہ ، شراب کباب، بے دینی
رشوت، بیروزگاری، مہنگا ئی، فلسطینیوں کے دشمن، امریکا کے پٹھو، محلات کے
مالک، اپنے بیٹے کو نائب بنانے کی خواہش رکھنے والے حکمران آخرکار عوام کے
سمندر کے سامنے نہ ٹھہر سکے لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی کا 41 سال کے
اقتدار کے باوجود دل نہیں بھرا۔ اپنے ہی عوام کو چوہے اور لال بیگ کہہ کر
ہلاک کر رہے ہیں مگر کسی بھی لمحہ کرنل معمر قذافی بھی ملک سے دوسرے ڈ
کٹیٹروں کی طرح فرار ہو جائے گا یا عوام اسے ٹھکانے لگا دیں گے-عالمِاسلام
میں لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اس لئے حکمرانوں کو ہوش کے
ناخن لینے چاہیئں ورنہ حکومت اور اقتدار نہیں ٹھہر سکے گا۔ |