تعلیم کسی بھی عمر میں حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے کبھی عمر
کو اپنے لئے رکاوٹ مت بنائیں۔
اگر آپ پر سکون رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔
جب تک اندر سے تبدیلی کا آغاز نہ ہو اوپر سے جتنا مرضی تبدیل ہو جائیں کچھ
بھی بدلنے کو ممکن نہیں ہو سکے گا۔
ہمارے ہاں اپنی نالائقی کو دوسرے پر ڈالنے کا رواج ہے تب ہی آج ہم مسائل کے
بھنور میں پھنس گئے ہیں۔
تعلیم سب حاصل کرتےہیں مگر کم افراد میں اس کی بدولت حقیقی تبدیلی رونما
ہوتی ہے یہی دیکھ لیں کہ اسکول سے واپسی پر کتنے منظم ہو کر چلتے ہیں سب
یہاں سے حاصل کیا ہوا سامنے لاتا ہے۔
ہم اچھا ہونا چاہتے ہیں، ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں، ہم جب تک یہ چاہتے ہیں کا
لفظ اچھا ہونا ہے، کچھ کرنا سے تبدیل نہیں کریں گے تب تک کچھ ہونا نا ممکن
ہے۔
ہم کچھ کہتے ہیں اور لوگ کچھ کا کچھ سمجھ کر ناراض ہو جاتے ہیں وہ یہ نہیں
سوچتے ہیں کہ ان کے سوچنے کا رخ غلط بھی ہو سکتا ہے مگر اسطرح سے وہ اپنے
مخلص دوستوں کو کھو دیتے ہیں محض غلط فہمی کا شکا رہو کر دکھی رہتے ہیں کہ
کوئی ان کا اپنا نہیں ہے۔
اگر آپ کسی کے راز جانتے ہیں تو پھر کچھ بھی ہو اُس راز کو راز رکھ کر
انسان کی عزت قائم رکھیں کیونکہ آپ کے بھی کوئی راز اللہ نے چھپائے ہوئے
ہیں جس کی وجہ سے آپ عزت دار کہلاتے ہیں۔
ہم ماضی کے غمگین اسکرین شارٹ کو ساتھ لئے پھرتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ
اجی بہت ظلم ہوگیا ہے، بھلا ایسے کیسے کوئی خوش رہے گا۔
ہمارا ضمیر مطمن ہے تو پھر کچھ بھی ہو جائے ہم پرسکون رہ سکتے ہیں مگر ضمیر
جس دن جاگ گیا تو ہم اپنے آپ کو بھی معاف نہیں کریں گے کہ اپنے ساتھ ظلم پر
ہم خود سے ضرور ناراض ہو سکتے ہیں اور کوئی بھی سزا خود کو دے سکتے ہیں
لہذآ اُ س حد تک نہ جائیں کہ ہم اپنے آپ کو معاف نہ کر سکیں۔
اگر آپ لگ رہا ہے کہ کچھ بُرا ہو رہا ہے تو کسی اور پر نہیں خود کو مجرم
بنائیں کہ جب تک ہم خود نہ چاہیں کوئی ہمارے ساتھ برائی نہیں کر سکتا ہے۔
اچھے سے اچھا انسان بھی برُا کر سکتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی ایسی وجہ
ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرتا ہے لہذا بُرائی سے نفرت کریں مگر انسان
سے نہیں کہ کوئی بھی خود سے بُرا نہیں بنتا ہے اُس کو حالات اور کوئی اُس
جانب دھیکتا ہے کہ بُرا بن جاتا ہے۔
زندگی میں جتنی چادر ہو اتنے پاوں اگر پھیلا لئے جائیں تو بے شمار مسائل سے
نجات مل سکتی ہے۔
کچھ باتیں تب سمجھ آتی ہیں جب پانی سر سے گذر جاتا ہے۔
ہر انسان اتنا کر سکتا ہے جتنا ہے اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے ،اللہ سے
زیادہ انسان سے توقعات رکھنے والے ہمیشہ پریشان ہی رہتے ہیں۔
ناکامی سے جتنے سبق سیکھے جاتے ہیں وہ کامیابی کی اتنی راہ ہموار کر دیتے
ہیں۔
مثبت سوچنے سے ذہنی پریشانیاں کم ہوتی ہیں۔
جب تک ہم کامیاب ہونے کی سوچ نہیں رکھیں گے تب تک کامیابی کا ملنا دشوار
رہے گا۔
مردوں کو تربیت دینا عورت کے سپرد ہے اگر وہ سمجھدداری دکھائی تو مرد عورت
کو احترام و عزت سکتے ہیں۔
جب آپ کسی بھی وجہ سے دوسروں کی تذلیل کریں گے تو پھر آپ بھی کہٹرے میں
کھڑے ہونگے، محض دوسروں پر الزامات لگانےسے آپ پاک و صاف نہیں ہو جاتے ہیں۔
سیکھنے کے لئے جواب دینا نہیں سوال کرنا اہم ہوتا ہے۔
اپنی غلطی اور دلیل کو غلط سمجھنے والے کبھی پریشان نہیں رہتے ہیں بلکہ یہی
وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ غلطیوں سے سیکھ کر کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں استاد اسکول میں یہ تعلیم نہیں دیتے ہیں کہ ہم کیسے
خوش رہ سکتے ہیں اور کس طرح سے پریشانیوں سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں مگر
دوسری طرف وہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ کس طرح سے نمبرز حاصل کرنے ہیں چاہے وہ
کسی طالب علم کی زندگی کو کسی بھی زوایے سے تباہ کر دے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ دہشت گردی کرائی جا
رہی ہے مگر ستم کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فرعون کے گھر میں ہی
موسی جنم لےلیتا ہے کچھ ایسا ہی اب کشمیر میں ہوتا نظر آئے گا۔
کسی کی قابلیت اور صلاحیتوں سے جلنے سے بہتر ہے کہ خود کو سنواریں، آپ میں
بھی کوئی ہنر چھپا ہوگا اس کو بروئے کار لا کر کامیاب انسان بن جائیں۔
محبت کے نام پر ایک دوسرے کو جذباتی طور پر بے ایمانی کرکے مفادات حاصل
کرتے ہیں پھر کہتے ہیں محبت سچی نہیں ملی ہے۔
کبھی کبھی کوئی خوف ہم کو ڈرا کے رکھ دیتا ہے مگر جب ہم اسی خوف کے سامنے
کھڑے ہو جائیں تو وہ نو دو گیارہ ہو جاتا ہے۔
چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہی اکثر فساد برپا کرواتے ہیں؟
واقعہ کربلا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ آپ تنہا بھی لڑ سکتے ہیں اس لئے باطل
سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ سازو سامان کی ضرورت ہے بس حوصلہ سے لڑیں،
کامیابی آپ کا مقدر بنے گی۔
ایک عزیز دوست کے بقول ہم بوڑھے ہوگئے ہیں مگر ہمارا نقطہ نظر
یہ ہے کہ جب آپ کی سوچ محدود ہو جائے تو آپ عمررسیدہ ہو جاتے ہیں
کہ جیسے بڑھاپا کچھ کرنے نہیں دیتا ہے اسی طرح سے محدود سوچ سے بھی کچھ
حاصل نہیں ہوتا ہے۔
اپنی توہین اور تذلیل برداشت کی جاسکتی ہے مگر اپنوں کے بارے میں سننا
ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
اپنی توہین اور تذلیل برداشت کی جاسکتی ہے مگر اپنوں کے بارے میں سننا
ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
واقعہ کربلا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ آپ تنہا بھی لڑ سکتے ہیں اس لئے باطل
سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ سازو سامان کی ضرورت ہے بس حوصلہ سے لڑیں،
کامیابی آپ کا مقدر بنے گی۔
ہم سب کتنے افسردہ ہوتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی چلنے کو تیار نہیں ہے ،
ہماری سوچ اورارادوں کو خود ہی پورا کرنا ہوتا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں
کہ اللہ کا سہارا مل گیا تو سب ناممکن مکن ہو جائے گا مگر افسوس ناک امر یہ
ہے کہ کم لوگ ہی اس کو سمجھ پاتے ہیں۔
|