28ستمبر۔۔معلومات تک رسائی کا عالمی دن اور پاکستان میں اسکی موجودہ صورتحال

کسی بھی معاملے میں پوچھ گچھ کیا جانا ارباب اختیار و اقتدار کو ہمیشہ ہی گراں گذراہے حکومتی انتظام چلانا ہویا ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنا ہوں انہیں کسی کے سامنے جوابدہ ہونا پسند نہیں ہے ۔عمومی طور پر ہمیں تمام سرکاری محکموں کے دفاتر میں ایسے ہی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں سوال کرنے والا نہ صرف ذلیل ہوتا ہے بلکہ اسے اس قدر انتظار کروایا جاتا ہے کہ وہ آئندہ سوال کرنے سے توبہ تائب ہو جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنا کچھ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے اور ایسا کرنا اس کے غصے کو دعوت دینے کے مترادف ہے اسی طرح اگر عوام اپنے اضلاع کے ارباب اقتدار و اختیار خواہ وہ سرکاری ملازم ہوں یا پھر نام نہاد عوامی نمائندے ان سے پوچھنا شروع کردے تو انکے رویوں میں ایک یہی قدر مشترک ہے جہاں انکی سوچ اور لب ولہجہ ایک جیسا ہوجاتا ہے اور وہ نہ صرف جواب دینے سے گریز کرتے ہیں بلکہ یہ ایسا کرنے کو اپنی شان کیخلاف سمجھتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام ایسے سوال ہی کیوں کرتی ہے جس کا جواب دینے سے وہ گریزاں ہوں یا نہ دینا چاہتے ہیں ۔بات بھی ٹھیک ہے کہ جب اقتدار اپنی مرضی سے ان کے سپرد کر دیا گیا تو سوال کیسا اور جواب مانگنا کیسا۔عوام توویسے بھی ان چکروں میں نہیں پڑتی لیکن اگر کوئی سر پھرا سوال پوچھنے کی عادت سے مجبور ہوکر کچھ پوچھ ہی بیٹھے تو جو اسکے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن آخر عوام پوچھنا کیا چاھتی ہے اور کیوں پوچھنا چاہتی ہے کیا انکے مسائل حل نہیں ہو رہے کیا انکے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال نہیں بچھایا جارہا کیا افسران انکی خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار نہیں رہتے کیا انکے مسائل حل نہیں کیے جارہے؟

جی ہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور واقعی ہو رہا ہے تو افسر شاہی کو ان کے بارے بتانے میں کیا مشکل ہے جی ہاں مشکل ہی تو ہے کیونکہ افسر شاہی تو یہی چاہتی ہے کہ عوام صرف یہ دیکھے کہ انکے شہر میں ترقیاتی منصوبے جلد یا بہ دیر مکمل ہو رہے ہیں ان پر کتنے اخراجات آئے ہیں اور کس کس نے اس منصوبے پر ہاتھ صاف کیے ہیں یہ نہ پوچھے ۔۔۔۔۔۔۔عوام صرف یہ دیکھے کہ افسران اپنے ٹھنڈے کمروں اور گاڑیوں میں آتے جاتے نظر آتے ہیں وہ وہاں کیا کرتے ہیں اور انکی ان ٹھاٹھ باٹھ پر کتنے خرچ آرہے ہیں یہ نہ پوچھے۔۔۔۔۔۔۔۔عوام صرف یہ دیکھے کہ رمضان المبارک آتے ہی سستے رمضان بازار لگا دیے جاتے ہیں جہاں افسران کی طرف سے روزانہ دورے بھی کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے لیکن ان سستے رمضان بازاروں جیسے تماشے اورافسران کی جانب سے ان پر کیے جانیوالے دورے اور فوٹو سیشن عوام کو کتنے میں پڑتے ہیں یہ نہ پوچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔عوام صرف یہ دیکھے کہ انکے عوامی نمائندے شاندار دفاتر میں براجمان ہیں لیکن انکے حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک ان دفاتر کی تزئین و آرائش پر کتنا خرچہ آیا ہے اور وہاں پر ان کا بیٹھنا عوام کو کتنا بھاری پڑ رہا ہے یہ نہ پوچھے۔۔۔۔۔۔ الغرض عوام کا کام صرف ٹیکس دینا ہے اور انکے اخراجات پورے کرنا ہے یہ پوچھ گچھ کرنے کیلئے تو درجنوں محکمے بنائے گئے ہیں۔وہ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔

جی ہاں عوام تکلیف اس لیے کرتے ہیں کہ پنجاب،خیبر پختونخواہ،سندھ اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے معلومات تک رسائی کے قوانین بنائے گئے ہیں جس کا مقصدہی عوام کو سوال کرنے کا آئینی حق دینا ہے اور جب یہ حق دے دیا گیا ہے تو پھر سوال کیوں نہ کیا جائے۔۔۔۔لیکن شاید بعض بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطالبہ پر یہ قوانی تو بنا دیے گئے لیکن ان قوانین کو کسی نہ کسی طرح عوام کی دسترس سے دور رکھنے کی کوششیں جاری ہیں اور سرکاری افسران کی جانب سے حتی الامکان یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معلومات فراہم نہ کی جائیں اب جبکہ شہریوں کی جانب سے روز بروز درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب سرکاری ادارے بھی ان قوانین کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

معلومات تک رسائی کی ترویج اورعام لوگوں میں اس قانون بارے آگاہی دینے پرکام کرنیوالے سماجی تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز( سی پی ڈی آئی) کی جانب سے گذشتہ روز پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر عملدرآمد کے حوالہ سے رپورٹ جاری کردی گئی۔پورٹ ان قوانین کے نفاذ کو دو مختلف انداز سے دکھاتی ہے پہلا معلومات کی از خود فراہمی اور دوسرا درکار معلومات پرسرکاری اداروں کا ردعمل شامل ہے۔ پاکستان بھر کی59 مختلف وزارتوں اور محکموں کے ویب سائٹس کو نمونہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ معلومات کی از خود فراہمی کی دفعات کوسامنے رکھتے ہوئے تمام وفاقی اور صوبائی ویب سائٹس کو کراس چیک کیا گیا۔یاد رہے کہ اس سلسلہ میں پنجاب آرٹی آئی کے قانون کی شق4،وفاقی اورخیبر پختونخواہ کے قوانین کی دفعہ5اور سندھ کے قانون کی دفعہ6 ان تمام معلومات کی فہرست سے متعلق ہے جو کہ سرکاری اداروں کی جانب سے از خود فراہم کرنا ضروری ہیں۔اس لسٹ میں اداروں کے تنظیمی ڈھانچہ،فرائض،عملے کی تفصیل ،سہولیات و مراعات، کارکردگی،جائزہ رپورٹس،فیصلہ سازی کے عمل اور بجٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔معلومات کی از خود فراہمی کے جائزہ کے مطابق وفاقی اور صوبائی محکموں کی جانب سے آرٹی آئی قانون کے تحت مجموعی طور پر31فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں اور نتائج کے مزید تجزیہ کے مطابق خیبر پختونخواہ کے صوبائی محکموں کی جانب سے اوسطً52فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اگرصوبہ میں مختلف محکموں کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ یعنی88فیصد معلومات محکمہ انفارمیشن و پبلک ریلیشن جبکہ سب سے کم صرف 21فیصد معلومات محکمہ معدنیات کی جانب فراہم کی گئی ہیں۔پنجاب آرٹی آئی قانون میں معلومات کی از خود فراہمی کی شق 4کے تحت صوبائی محکموں کی جانب سے اوسطً صرف38فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔جبکہ دیگر محکموں کے مقابلہ میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سب سے زیادہ یعنی59فیصد معلومات اور بورڈ آف ریونیو کی جانب سب سے کم یعنی صرف 12فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔وفاقی وزارتوں اور محکموں کی جانب سے معلومات کی از خود فراہمی کی شق5کے تحت اوسطً صرف25فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ان میں سے پاکستان تحفظ ماحول ایجنسی نے سب زیادہ 44فیصد معلومات فراہم کر رکھی ہیں جبکہ صرف 12فیصد معلومات وزارت ہاؤسنگ پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔صوبہ سندھ کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہہ ہے جہاں مجوعی طور پراوسطً12فیصد معلومات سندھ آرٹی آئی قانون کی معلومات کی از خودفراہمی کی شق6 کے تحت دستیاب ہیں جبکہ سب سے زیادہ 21فیصدمعلومات محکمہ فاریسٹ اینڈ وائیلڈ لائف اور صرف6فیصد معلومات محکمہ ایریگیشن سندھ کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔صوبہ بلوچستان کو اس رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا کیونکہ بلوچستان کے آرٹی آئی قانون میں اداروں کی جانب سے معلومات کی از خود فراہمی سے متعلق کوئی شق سرے سے موجود ہی نہیں۔

معلومات کے حصول کی درخواستوں پر کاروائی کیے جانے پر تجزیہ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ درخواستوں پر ردعمل کی شرح صرف13فیصد رہی جبکہ صرف3.7فیصد درخواستوں پر معلومات فراہم کی گئیں۔ مجموعی طور پر527درخواستیں سرکاری اداروں کو ارسال کی گئیں جن میں100پنجاب،100خیبر پختونخواہ،100سندھ اور127وفاق کو دی جانیوالی درخواستیں شامل ہیں یہ درخواستیں عوامی دلچسپی اور مختلف مسائل سے متعلق تھیں۔ارسال کردہ 527درخواستوں میں سے سرکاری اداروں کی جانب سے صرف71 جوابات موصول ہوئے جن میں پنجاب کے 12،وفاق کے 14اور خیبر پختونخواہ کے45 جوابات شامل ہیں ان71جوابات میں سے بھی صرف20محکموں کی جانب سے مطلوبہ معلومات فراہم کی گئیں ۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔رپورٹ کے نتائج صرف اداروں کی جانب سے کاروائی کیے جانے کے مرحلے پر ہی اخذ کیے گئے ہیں اور کسی بھی مرحلے میں اپلیٹ فورمز پر شکایات ارسال نہیں کی گئیں۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے نفاذ کیلئے ابھی بہت طویل اور کٹھن سفر کرنا باقی ہے محض معلومات تک رسائی کے موثر قوانین بنادینا ہی کاقی نہیں ہے جب تک کہ سرکاری اداروں کی جانب سے رازداری کے کلچر کومعلومات عام کیے جانے سے تبدیل نہیں کر دیا جاتا۔

یہ رپورٹ انتہائی مایوس کن اعدادوشمار سامنے لائی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے نہ صرف اپنے آپ کو جوابدہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس قانون کو اپنی شان کے منافی سمجھ رہے ہیں صرف صوبہ خیبر پختونخواہ وہ واحد صوبہ ہے جہاں سے نہ صرف سب سے زیادہ جوابات موصول ہوے لیکن صوبہ پنجاب کا تو باواآدم ہی نرالا ہے جنہوں نے درخواستوں کا جواب دینا ہی گوارا نہیں کیا بلکہ بعض اداروں نے تو درخواست گذاروں سے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں بھی طلب کیں جو کہ معلوما ت تک رسائی کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔

مختلف محکموں کو ارسال کردہ سینکڑوں درخواستوں میں سے چند کے جوابات اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں جبکہ سینکڑوں درخواستیں ابھی بھی ایسی ہیں جن پر معلومات ملنا ابھی باقی ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ معمولی نوعیت کی درخواستوں پر بھی معلومات کی فراہمی نہیں کی جاتی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے آئینی تحفظ اورمعلومات تک رسائی کے حق کے قانون کی موجودگی کے باوجود سوال پوچھنا جرم بن چکا ہے شہریوں کی جانب سے ارسال کردہ معلومات کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جارہا ہے کوئی بھی ادارہ جواب دینے کو ضروری نہیں سمجھتا جس سے سینکڑوں شکایات التواکا شکار ہیں۔یا پھر عوام کی جانب سے سوال کرنے کو جرم ٹھہرا دیا گیا ہے۔۔۔۔؟

نئی حکومت کو بھی ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن تبدیلی سرکاری سرکاری اداروں،افسران اور اہلکاروں کے رویوں میں تبدیلی لانے میں ناکام ہو چکی ہے ۔تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والی حکومت میں بھی بیوروکریسی کے لچھن ویسے کے ویسے ہی ہیں عوام نے جس تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا اس کا ابھی تک دوردور تک نام و نشان بھی موجود نہیں ہے گڈ گورننس کی دعویدارصوبائی اور مرکزی حکومتوں کیلئے ان قوانین کی عملداری بہت بڑا چیلنج ہے ، ضرورت اس امر کی انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے شکایت کنندگان کی حالت پر رحم کھایا جائے اورانکی شکایات پر بروقت نوٹسز جاری کیے جائیں اور جن اداروں نے سالوں سے معلومات فراہم نہیں کیں انکے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے تاکہ عوام سوال کرنے کے حق کو پوری طرح استعمال کر سکیں ۔ویسے بھی تحریک انصاف کی حکومت میں تو عوام کو انصاف ملنا چاہیے۔۔۔۔یا پھر اس حکومت میں بھی سوال کرنا جرم ٹھہرے گا؟

 

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 16481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.