فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوب مغربی
فرانس میں واقع تمباکو کی سب سے آخری فیکٹری ’فرانس تباک‘ پلانٹ بند کی جا
رہی ہے۔
|
|
فرانس تباک کے ڈائریکٹر تباک ایرک تبانوؤ تمباکو کے پتوں کی آخری کھیپ
سونگھ رہے ہیں۔
|
|
سنہ 1985 میں فرانس کے تمباکو اگانے والے سب سے اہم خطے میں اس فیکٹری کا
آغاز کیا گیا تھا۔
|
|
25 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلی اس فیکٹری میں ہر سال نا صرف فرانس بلکہ
یورپ بھر سے 20000 ٹن تمباکو کے پتوں کی پراسیسنگ کی جاتی تھی۔
|
|
مقامی کاشتکار پیٹرک موری مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ تمباکو بھی اگاتے ہیں
جسے وہ فرانس تباک پلانٹ کو بیچتے تھے۔
|
|
فرانس تباک پلانٹ پیٹرک موری کے علاوہ پورے فرانس سے تمباکو کے پتوں کی
خریداری کرتا رہا ہے۔
|
|
تمباکو نوشی کے خلاف مہم چلانے والوں کے لیے شاید یہ اچھی خبر ہو لیکن اس
فیکٹری میں کام کرنے والے کارکنوں اور تمباکو کے مقامی کاشتکاروں کے لیے 34
سال کے بعد فرانس تابک فیکٹری کا بند ہونا ایک دھچکے سے کم نہیں۔
|
|
آس پاس کے کاشتکاروں سے تمباکو کے پتوں کی خریداری سے لے کر مقامی افراد کو
روزگار کی فراہمی تک، اس فیکٹری نے مقامی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا
کیا ہے۔
|
|
فرانس تباک میں 30 سال تک ملازمت کرنے والے 61 سالہ چینکوئی افسوس کا اظہار
کرتے ہوئے کہتے ہیں ’میں اپنے کریئر کے اختتام پر ہوں لیکن میرے وہ دوست جن
کے کریئر میں ابھی ایک دہائی باقی ہے، ان کے لیے یہ مشکل ہے۔‘
|
|
اکتوبر کے آغاز میں سرلٹ لے کینیدا میں واقع اس فیکٹری میں پروڈکشن روک دی
گئی۔
|
|
فیکٹری کے ڈائریکٹر ایرک تبانو کا کہنا تھا کہ 2000 ملازمین کو فیکٹری کی
بندش کے متعلق بتانا خاصا تکلیف دہ تھا لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی
چارہ نہیں تھا۔
|
|
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق فرانس میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد
ابھی تک کسی ترقی یافتہ ملک کے لیے مقررہ اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ |