مویشی پالنے اور ان کی ضروریات کی خاطر سفر اختیار کرنے
کا پیشہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ پاکستان میں اس پیشے سے منسلک لوگوں کو
بکروال کہا جاتا ہے۔
|
|
بکروالوں کی بڑی اکثریت ملک کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان، ہزارہ ڈویژن،
مالاکنڈ ڈویژن، چترال، بلوچستان اور کشمیر میں پائی جاتی ہے۔
یہ لوگ قدرتی ماحول کے سہارے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ماحولیات، ملکی
معیشت، زراعت اور خوراک کی فراہمی میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
سنہ 2012 میں شعبۂ ماحولیات پشاور یونیورسٹی اور برن یونیورسٹی سوئٹزر لینڈ
کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے
بکروال ملکی معیشت میں سالانہ نو ارب روپے سے زائد کا حصہ ڈالتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 30 سالوں سے موسم کے لحاظ سے مال
مویشیوں کو چارے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں لانے اور لے جانے کا عمل
مسلسل خطرات کا شکار ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر خطرات کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان نہ صرف روایتی
اور سستی لائیو سٹاک کی پیداوار سے محروم ہو جائے گا بلکہ اس کی گوشت، چمڑے
اور اون کی صنعت پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ ایک ماحول
دوست معاشی سرگرمی سے بھی محروم ہو جائے گا۔
|
|
بکروالوں کا تعارف، ان کی زبانی
انجمن آل گجر بکروال کے چیئرمین محمد عنایت پروانہ نے بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے بتایا کہ گجر قبیلے کے وہ لوگ جو مال مویشی رکھنے کے کاروبار اور ان
کے لیے سفر اختیار کرتے ہیں بکروال یعنی بکریوں والے کہلاتے ہیں۔
’ہم خانہ بدوش نہیں اورنہ ہی بھیک مانگتے ہیں۔ اگر راہ چلتے کوئی ہم سے
بکرے اور دنبے خریدنا چاہے تو اس وقت اس کو بکرا فروخت کرنا بھی اصول کے
خلاف ہے۔ دودھ، دہی، مکھن، دیسی گھی اور لسی ہماری خوراک ہیں، اور ان کی
فروخت کو بھی پسند نہیں کیا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مختلف علاقوں کے بکروال سال میں دو مرتبہ گرمیوں اور
سردیوں میں سفر کرتے ہیں۔
کاغان کے بکروال ضلع ہری پور، اٹک اور ارد گرد کے علاقوں میں جاتے ہیں۔
وادی نیلم والے راولپنڈی، اسلام آباد کے علاقوں کے علاوہ فتح جنگ اور سوات،
دیر والے مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، مردان جبکہ چترال والے تو افغانستان
بھی آتے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان والے اوپر پہاڑوں سے شہروں کے قریبی علاقوں
کا رخ کرتے ہیں۔
محمد عنایت پروانہ کے مطابق بکروال لوگوں کی آمدن سال میں ایک مرتبہ بکرے
اور دنبے فروخت کرنے سے ہوتی ہے۔ ان لوگوں سے مویشی ملک بھر کے بیوپاری اور
ایسے شوقین افراد خریدتے ہیں جو فارم اور قدرتی ماحول میں پلے ہوئے بکروں
اور دنبوں کا فرق سمجھتے ہیں۔ عنایت بتاتے ہیں کہ اسلام آباد اور دیگر بڑے
شہروں میں موجود کئی لوگ سفارشیں کر کے ہم سے بکرے اور دنبے منگواتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ گھوڑے اور کتے ان کی ثقافت اور ضرورت ہیں اور ان کا ہر بچہ
بہترین گھڑ سوار ہوتا ہے جبکہ وہ پکے مکات کے بجائے کچے مکانوں میں رہنا
پسند کرتے ہیں۔
|
|
بکروالوں کے مسائل کیا ہیں؟
60 سالہ غلام نبی مقدم صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی وادی کاغان کے
بکروال خاندان کے سربراہ ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
ہمارے باپ دادا کے زمانے میں مویشیوں کے لیے وسیع چراگاہیں ہوا کرتی تھیں
مگر اب چراگاہوں پر عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں جس کی وجہ سے مویشیوں کے لیے
خوراک کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
’پہلے بارشیں اور برفباری وقت پر ہوتی تھیں۔ اب کبھی بارشیں ہوتی نہیں اور
کبھی بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی گھاس کم ہوتی ہے اور مال مویشی
کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
غلام نبی مقدم سادہ مگر جہاندیدہ شخص ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’پیدل سفر کرنا
ہمارے اور ہمارے مال مویشیوں کی فطرت میں ہے۔ مال مویشی کو چارہ ملتا رہے
اور وہ چلتے رہیں تو پھلتے پھولتے ہیں مگر گذشتہ چند سالوں سے خیبر
پختوںخواہ میں (بکروالوں، ریوڑوں کے) پیدل سفر کرنے پر پابندی عائد ہے جبکہ
پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ مال مویشیوں کو ٹرکوں میں لادتے اور اتارتے ہوئے
10 سے 12 بکریاں مر جاتی ہیں اور بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ چند سالوں سے تو
جنگل میں بھی داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں پودے لگائے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے باپ دادا ان کے لیے ایک ہزار سے زائد مویشیوں اور
پانچ گھوڑوں کا ریوڑ چھوڑ کر گئے تھے مگر اب ان کا ریوڑ صرف سو کے قریب
مویشیوں اور دو گھوڑوں پر مشتمل ہے۔
|
|
30 سالہ محمد اسلم کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند سالوں سے مویشیوں پر ریچھ، شیر
(تیندوے) اور دیگر جنگلی جانوروں کے حملے بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے انھیں
اضافی جسمانی و ذہنی تکان کا سامنا ہے۔
’دن کو مویشیوں کی خدمت کرتے ہیں، رات کو ان کی حفاظت کے لیے پہرے دیتے ہیں۔
حالات سے تنگ آ کر میرا ایک بھائی یہ کام چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہا ہے۔
میں بھی سوچتا ہوں کہ ایسا ہی کچھ کرنا چاہیے۔‘
بکروالوں پر کی گئی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ
ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر بھی ان
لوگوں کو مختلف مسائل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سوات، بونیر اور دیر میں
گذشتہ سالوں کے دوران پہاڑوں پر کان کنی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس سے یہ
لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ’جس طرح پہاڑ تباہ کیے جا رہے ہیں، اس
صورتحال میں یہ لوگ سفر نہیں کر سکتے۔‘
’یہ لوگ ہزاروں سال سے جھیل سیف الملوک کے علاقے میں رہ رہے تھے مگر اب یہ
کہہ کر کہ جھیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے ان کا وہاں داخلہ بند کر دیا گیا ہے،
جبکہ وہاں پر کینٹین کا ٹھیکہ بھی غیر مقامی افراد کو دے دیا گیا ہے جو
پلاسٹک بھی پھیلا رہے ہیں اور کشتیاں بھی چلا رہے ہیں جس سے جھیل کو واقعتاً
نقصان پہنچ رہا ہے۔
’بکروال لوگ تو پلاسٹک جیسی ماحول دشمن اشیا کو تو اپنے قریب ہی نہیں آنے
دیتے، پتا نہیں کہ یہ کس طرح جھیل سیف الملوک کو نقصان پہنچا رہے تھے؟
|
|
اسی طرح چترال اور گلگت بلتستان کے بکروالوں کے مقامی مسائل الگ ہیں۔
ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا تھا کہ بکروال اپنے مسائل بھی خود حل کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر موسمی تبدیلی کی وجہ سے ان کو جابہ
بالاکوٹ کی پہاڑی کے دامن پر گھاس نہ ملے تو یہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اگر
سردیوں میں ہری پور موافق نہ ہو تو اٹک کا رخ کر لیتے ہیں۔‘
کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کے پاس بکروالوں کے مکمل اعداد و شمار
دستیاب نہیں تاہم تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے
ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویثرن میں 7400 بکروال خاندان ہیں جن کی آبادی 50 ہزار
بنتی ہے۔
بکروالوں کی ماحولیات کے لیے خدمات
پروفسیر ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق بکروال ایسی ماحولیاتی اور معاشی خدمات
بھی فراہم کرتے ہیں جو ان کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں ہو سکتیں۔
’نہ صرف یہ لوگ اون، دودھ، چمڑا اور گوشت فراہم کرتے ہیں، بلکہ ایسے مقامات
پر نائیٹروجن، فاسفورس اور کاربن پہنچاتے ہیں جہاں پر اگرحکومتیں نائیٹروجن
پہنچائیں تو اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوں گے۔ جب سردیوں میں یہ میدانی علاقوں
میں جاتے ہیں تو وہاں پر بھی کھیتوں کو قدرتی کھاد فراہم کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق کئی پودے ایسے ہیں جن کے بیج ان کے مویشیوں کی
بدولت ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچتے اور تیار ہوتے ہیں۔ ’کئی جڑی بوٹیاں جن
کی تعداد بڑھ جائے تو وہ زراعت اور انسانوں کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں، ان
کی تعداد کنٹرول میں رہتی ہے۔ یہ سب خدمات بکروال مفت میں دیتے ہیں اور ان
کے بدلے بجلی، پانی، سڑک نہیں مانگتے۔ پیٹرول، گیس بھی خرچ نہیں کرتے۔‘
|
|
بکروال کسی قومی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں
محکمۂ جنگلات ہزارہ ڈویژن کے کنزویٹر اعجاز قادر کا کہنا تھا کہ بکروال
جہاں سے گزرتے ہیں ان کے مال مویشی پودوں کا صفایا کر دیتے ہیں۔ انھوں نے
بتایا کہ ایک ارب درخت لگانے کے حکومتی منصوبے ’بلین ٹری سونامی‘ کے بعد ان
کے پیدل چلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بکروال معیشت میں بڑا حصہ ڈالتے ہیں۔ ’فاریسٹ
پالیسی میں فی الحال تو ان کا ذکر نہیں مگر اس کی تجویز ضرور دی گئی ہے کہ
ان کو فاریسٹ پالیسی میں شریک کیا جائے۔‘
پروفسیر ڈاکٹر محمد نفیس انھیں فاریسٹ پالیسی میں شریک کرنے کے حامی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سوئٹزر لینڈ اور جرمنی جیسے ممالک کو چھوڑیں، افغانستان
جیسے ملک میں بھی بکروال قومی پالیسی کے ہر شعبے کا لازمی حصہ ہیں۔‘
وزارت ماحولیات کے سابق آئی جی فاریسٹ سید محمود ناصر کے مطابق بکروالوں کے
آبائی پیشے کا تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
’دنیا کے تمام ممالک بکروالوں کو موبائل سکول اور صحت جیسی سہولتیں فراہم
کر رہے ہیں تاکہ وہ ملکی ترقی اور خوراک کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرتے
رہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں بھی ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ |