بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بزرگی انسانی عمرکاوہ حصہ ہے جب جوانی رخصت ہوچکی ہوتی ہے اور قوائے جسمانی
عروج سے زوال کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔انسانی صلاحیتوں پر کمزوری غالب ہونے
لگتی ہے، نفسیات میں عدم برداشت کاغلبہ ہو جاتاہے اور پسند و ناپسند کے
جذبات اپنی آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں۔اسی طرح پیار،محبت اور خلوص و
وارفتگی کے ظروف بھی لبالب ہو جاتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی مدھم
پڑجاتی ہے۔بزرگی میں بیماریاں بھی انسانی جسم میں گھرلیتی ہیں اور علاج کے
نام پر ادویات کے استعمال کاایک طویل سلسہ چل نکلتاہے،اور بعض اوقات یہ
سلسلہ تاحیات جاری رہتاہے۔بزرگی میں مصروفیات محدود ہوجاتی ہیں،سفرسے
گھبراہٹ ہونے لگتی ہے،اپناٹھکانہ عزیز تر ہوجاتاہے،کہیں اور تسلی بخش تسکین
و آرام میسرنہیں آتا۔بزرگی کی ایک اورخاص بات کھانے پینے میں پرہیز
ہوتاہے،جوانی کابے ہنگم اور بے وقت کھانا پیناختم ہوچکاہوتاہے۔وقت کی
پابندی کے ساتھ نپی تلی خوراک،پرہیزی کھانا اورنرم غذابزرگوں کے معمولات
کااہم حصہ ہوتے ہیں اورہاتھ میں لاٹھی بھی آجاتی ہے۔کچھ بزرگ اپنی آخری عمر
میں مطالعہ کی طرف رغبت کر لیتے ہیں،کچھ عبادت و ریاضت میں دل لگالیتے
ہیں،کچھ بزرگوں کواگر قریبی صحبتیں میسرہوں تووہ زیادہ تر وقت اپنے
عمررسیدہ دوستوں کے ساتھ طویل گفتگومیں گزارناپسند کرتے ہیں۔بزرگ خواتین کا
زیادہ تر وقت اپنے پوتوں نواسوں کی خدمتوں میں گزرتاہے۔نانی اماں یا دادی
اماں کی ایک بغل میں پوتا،دوسری میں نواسا،گودمیں ٹانگیں چلاتاہواایک
اوربچہ اورایک بچی کندھے پر سواردادی یانانی کے منہ میں کوئی چیز ڈال رہی
ہوتی ہے یا منہ سے کچھ نکال کر اپنے منہ میں ڈالنے کی تگ و دومیں مصروف
ہوتی ہے۔
انسان اس دنیامیں عمر کاایک مقتدرحصہ گزارکر اب اگلی دنیاکے لیے پابہ رکاب
ہوتاہے۔آغاز عمری میں انسان کے اعضاء و جوارح مضبوط لیکن عقل محدود و ناقص
ہوتی ہے۔بزرگی میں انسان مرقع ضعف ہوتاہے لیکن اس کی عقل و تجربہ اپنی وسعت
واستنادمیں بے مثل ہوجاتی ہے۔جب کہ انسانیت کا خاصہ و اثاثہ حقیقی عقل ہی
ہے۔چنانچہ انسان جیسے جیسے بزرگ ہوتاچلاجاتاہے اسی قدر قیمتی سے قیمتی تر
ہوتاچلاجاتاہے۔قدرت کابھی یہی قانون ہے کہ جنگلی حیات پر نظر ڈالی جائے تو
ہر حیوانی قبیلے کی قیادت عمررسیدہ جانور ہی کرتاہوا نظر آئے گا۔اسی طرح
پرندوں میں بھی بچے یاجوان کبھی آگے آگے نہیں اڑتے بلکہ دوران پرواز بزرگ
پرندہ اڑان بھرتے ہوئے پورے جھنڈ کی سمت و منزل کاتعین کرتاہے اور باقی
تمام اس کی پیروی میں بلا چوں و چرا اڑتے چلے جاتے ہیں۔حشرات ارض کی بستیاں
ہوں یا کیڑوں کے چھتے یا اﷲ تعالی کی دیگرمخلوقات،سب کے ہاں قیادت و سیادت
کا فریضہ بزرگ و عمر رسیدہ مخلوق کے ذمہ ہوتاہے تآنکہ اجل انہیں اچک لے یا
پھر ان کادائرہ حیات کسی اور سبب سے اختتام پزیر ہوجائے۔
انسان کا ابتدائی اور قدرتی نظام حیات بھی عائلی وقبائلی تھا۔ایک قبیلے میں
جنم لینے والا بچہ اس قبیلے کی نسبت سے پہچانا جاتاتھا۔عنفوان شباب میں اسے
دوافراد پرمشتمل ایک گھرکی سربراہی مل جاتی ہے۔جب اس کے ہاں بھی بچے جنم
لیتے تو وہ ایک گھرانے کی قیادت سنبھال لیتا۔اس گھرانے کی جملہ ذمہ
داریاں،بچوں کی پرورش،معاش،تعلیم،دوسرے گھرانوں سے تعلقات کے درمیان
اتارچڑھاؤاور ان سب کے ساتھ ساتھ صحت کاخیال وغیرہ سب اس کے فرائض منصبی
ہیں،یہاں تک کہ ایک نسل پروان چڑھ چکتی ہے اب ان کے روزگار،رشتے،خانہ
آبادیاں کرتے کرتے وہ پورے ایک خاندان کا سربراہ بن جاتاہے جس کے اندر
متعدد چھوٹے بڑے گھرانے اس کی زیرسرپرستی چل رہے ہیں۔وقت کادھارادھیرے
دھیرے بہتارہتاہے یہاں تک کہ اس کی نسل بارآور ہوتی ہے اور اب وہ بزرگی کی
حدود میں داخل ہو کر پورے ایک قبیلے کاسرداربن جاتاہے۔یہاں بزرگی کے ناطے
وہ اپنے علاقے،اپنے خیش قبیلے اوراپنے قرب و جوار کا قیمتی ترین فرد
ہے۔بچوں کے چھوٹے چھوٹے معاملات سے لے کر قبائلی تعلقات،جرگے،پنچائتیں اور
مقدمے اور دیگر چھوٹے بڑے امور اسی کی زیرنگرانی تکمیل پزیرہوتے ہیں،اسی کی
آخری رائے فیصلہ کن ہوتی ہے اور وہ اپنی بزرگی کے باوجود اپنی عمررسیدگی
اور عقل و تجربے کی بنیاد پر ہر معاملے میں ایک فیصلہ کن کرداراداکرتاہے۔
بزرگی و بڑھاپاکب شروع ہوتاہے؟؟یہ ایک لاینحل سوال ہے،تاہم جوانی
اورعہدشباب بہرحال چالیس سال کی عمر تک رہتاہے۔اس کے بعد کچھ خاص عوامل کی
موجودگی بڑھاپے کوموخرتوکر سکتی ہے یا بزرگی کی آمد میں وجہ تاخیرتوبن سکتی
ہے لیکن اب شباب رخصت ہوچکا۔اس عمر کو قرآن مجید جیسی کتاب نے بھی ذکر
کیااور فرمایا’’ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بَوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا
حَمَلَتْہُ اُمُّہ‘ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا وَ حَمْلُہ‘ وَ
فِصٰلُہ‘ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہ‘ وَ بَلَغَ
اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ
الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ
صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ
اِلَیْکَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴿۴۶:۱۵﴾‘‘ترجمہ:’’اورہم نے انسان
کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے،اس کی ماں نے مشقت
اٹھاکراسے پیٹ میں رکھا،اورمشقت اٹھاکراسے جنااوراس کے حمل اوردودھ چھڑانے
میں تیس ماہ لگ گئے۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کوپہنچااور چالیس سال
کاہوگیاتواس نے کہااے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں
کاشکراداکروں جوتونے مجھے اور میرے والدین کوعطافرمائیں اورایسانیک عمل
کروں جس سے توراضی ہواورمیری اولاد کو بھی نیک بناکرمجھے سکھ دے میں تیرے
حضورتوبہ کرتاہوں اورتابع فرمان بندوں میں سے ہوں‘‘۔چنانچہ بڑھاپے کامنطقی
نتیجہ یہ نکلناچاہیے کہ انسان اﷲتعالی کی طرف رجوع کرے اور اس عمرسے پہلے
کے گناہوں پر نادم ہوکر آئندہ بچنے کاعہد کرے اور اپنے والدین کا مشکورہونے
کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسل کی فکرآخرت بھی اسے دامن گیرہو۔
آپﷺ نے متعدد احادیث مبارکہ میں بڑھاپے کے فضائل بیان فرمائے۔ایک موقع پر
جب ایک بزرگ کو محفل میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہ دی گئی تو آپﷺنے فرمایا جو
بڑوں کی عزت نہیں کرتااورچھوٹوں پر شفقت نہیں کرتاوہ ہم میں سے نہیں۔ایک
اورموقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالی سفید بالوں سے حیاکرتاہے۔سفیدبالوں
کاذکرکرتے ہوئے ایک بارآپﷺنے فرمایا جس کے بال حالت اسلام میں سفیدہوگئے اس
کے لیے قیامت کے دن نورہوگا۔آپﷺنے یہ بھی فرمایاکہ اﷲ تعالی کی عظمت و
بڑائی کا تقاضاہے کہ بوڑھے مسلمان کااکرام کیاجائے۔آپﷺ نے چھوٹوں کو حکم
دیاکہ بڑوں کوسلام میں پہل کریں۔ایک اورموقع پر آپﷺکا ارشاد مبارکہ ہے کہ
’’برکت بڑوں سے ہوتی ہے‘‘مطلب یہ کہ بزرگوں کی موجودگی گھرکے رزق میں
اوردیگرمعاملات میں باعث برکت ہوتی ہے ۔آپﷺنے نماز میں امامت کرنے والوں کو
حکم دیاہے کہ اپنے مقتدیوں میں بوڑھوں اور کمزوروں کا خیال رکھیں،یعنی طویل
نماز سے پرہیز کریں۔اسی طرح بوڑھے گناہ گار کے بارے میں آپﷺ نے
اظہارناپسندیدگی فرمایا۔آپﷺ نے ’’ارذل اللعمر‘‘یعنی اتنی بڑھاپے کی عمر جس
میں انسان برائی اور بھلائی کافرق کھوبیٹھے اور معذورومحتاج ہوجائے ،ایسی
عمر سے پناہ مانگی ہے۔یادرہے کہ بزرگوں کی یہ قدر افزائی و عزت پروری بلا
تفریق رنگ و نسل و زبان و علاقہ ہے۔تاہم جس بزرگ سے جتناقریبی تعلق یارشتہ
ہو اس کی عزت و احترام اتنی زیادہ اہم تر ہے۔
اسلامی تہذیب اور سیکولرمغربی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اسلامی تہذیب
میں انسان جیسے جیسے عمر رسیدہ ہوتاجاتاہے وہ قیمتی ہوتاجاتاہے ۔اس کے
مقابلے میں سیکولرمغربی تہذیب میں بوڑھے افراد معاشرے پربوجھ سمجھے جاتے
ہیں۔انہیں الگ عمارت میں ایک طرح سے قید کردیاجاتاہے۔سیکولرتہذیب میں انسان
کو درہم و دینارمیں تولاجاتاہے،جب تک انسان سوناچاندی اگلتارہے تووہ قیمتی
ہے اور جب وہ معاشرے سے اپنی خدمات کاعوض مانگنے کی عمر میں آئے تواسے
دھتکاردیاجائے۔ان سیکولرمعاشروں میں اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ آفت
زدہ علاقوں سے لوگ اپنی کتوں اور بلیوں کوتو بغل میں دباکر بھاگ آئے لیکن
والدین اوروالدین کے والدین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے کہ یہ ریاست
کی ذمہ داری ہے۔اسلامی تہذیب میں پر صبح کاآغازکسی بزرگ کی بلند آواز پر
ہوتاہے جس میں وہ نمازکے لیے سب کو جگاتاہے اور اس کی آواز کے بعد کسی کو
سونے کایارانہیں رہتا۔اسلامی تہذیب میں خاص طور پر بزرگ خواتین کو صرف سجدہ
نہیں کیاجاتا باقی تمام تر احترامات و اکرامات وانعامات جو کسی انسان کے بس
میں ہوسکتے ہیں انہیں بطورخراج عقیدت واحترام کے پیش کیے جاتے ہیں۔ جب کہ
مغربی سیکولر تہذیب سال بھرمیں ایک دن پھول لے کر بزرگوں کے پاس چلاجانا
کافی سمجھ لیاجاتاہے۔اسلامی تہذیب میں کسی بزرگ کے فوت ہونے پر سارا قبیلہ
یاشہر امڈ آتاہے اور دکھ بانٹ لیاجاتاہے جب کہ مغربی سیکولرتہذیب میں بزرگ
کے فوت ہونے پر بلدیہ والوں کا بل آجاتاہے جس میں تجہیزوتکفین کے جملہ
اخراجات مانگے گئے ہوتے ہیں اور بہت قریبی عزیزاگر ضروری سمجھیں تو ای میل
پر تعزیتی پیغام بھیج دیتے ہیں۔انسانیت کی قدر اگر کہیں ہے تو وہ انبیاء
علیھم السلام کی تعلیمات میں ہی ہے،جو اقوام ان تعلیمات سے دورہیں وہ
جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔
|