تحریر: ماہ گل عابد
اﷲ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ کئی طرح کے احساسات بھی رکھ دیے،
ان احساسات میں کچھ اچھا ہوتا ہے کچھ برا ہوتا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا
ہے ایک شخص اچھائی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے مگر کچھ لوگوں کو اس کی اچھائی
برائی ہی لگتی ہے۔ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کئی لوگ جو ہیں وہ خواہ مخواہ
ہی برے لگنے لگ جاتے ہیں ایک وقت آتا ہے وہ زندگی کے اس موڑ پر کھڑے ہوتے
ہیں جب وہ کچھ اچھا بھی کر رہے ہوتے ہیں لوگوں کو وہ برا ہی لگ رہا ہوتا
ہے۔ اسی اچھائی اور برائی کی کشمش میں وہ اپنی ذات کو بھول بیٹھتا ہے اپنی
ذات سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے نفرت صرف ان لوگوں کی وجہ سے
کر رہا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہی اس کے بارے میں منفی تصورات اور منفی خیالات
رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کے اندر خامیاں ہوتی ہیں مگر ناجانے
اس میں بہت سی خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ پر اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسی
خامیوں کی وجہ سے ہی ہر شخص اسے کہتا ہے تم میں یہ خامی ہے، تم میں وہ خامی
ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جو شخص برا لگتا ہے اس کی خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں
اس کی اچھائی نظر نہیں آتی۔ یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب وہ
دنیا سے ہی منہ موڑ جاتا ہے۔ وہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ پھر کہیں جاکر لوگوں
کو اس کی اچھائیوں کا احساس ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کچھ لوگ کہہ
رہے ہوتے ہیں۔ اس شخص کی فلاں اچھائی تھی۔مگر تب وہ اچھائی کسی کام کی نہیں
ہوتی وہ اچھائی بیان کرنا یا اس کی بات کرنا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے ایک،
شخص پوری زندگی بھوک افلاس کے ساتھ گزارتا ہے اسی بھوک پیاس میں مرجاتا ہے
مگر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس شخص کے مرنے پر دیگیں تو چاولوں کی بانٹ دیتے
ہیں۔ اس کے مرنے کے بعد پروگرامات، تقریبات رکھی جاتے ہیں۔ مگر جب اس کو
کھلانے کا وقت ہوتا ہے تب اس کو کوئی نہیں کھلاتا۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ
اپنے پڑوسی کی باتوں اس کے کردار اس کی حرکتوں کی وجہ سے تنگ آکر وہ وہاں
سے چلا جاتا ہے۔ مگر اس کے جانے کے بعد اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں یہ
اچھائی تھی۔ یہ اچھائی تھی۔ مگر تب اس کی تعریف کرنے کا کوئی فائدی نہیں
ہوتا تو کیوں ہے ایسا جب ایک شخص آپ کے پاس ہوتا ہے تب اس کی قدر نہیں
کرتے۔ جب ایک شخص آپ کے قریب ہوتا ہے آپ اس کی اچھائیوں کو اگنور کرتے ہیں۔
ہمیشہ برا برا اور اس کو برائی کی طرف ہی دھکیلتے ہیں۔ اس کے جانے کے بعد
اس کی تعریف کرنے کا کیا فائدہ۔ اس کے جانے کے بعد آپ اس کی اچھائیاں بیان
کرنا کس کام کی جب وہ مر جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بندے کے مرنے جانے کے بعد اس کی توبہ کا کیا فائدہ جو اس کی زندگی میں اس ے
کسی کام نا آسکی۔ تو انسان انسان کے جانے کے سے پہلے اس کی قدر کر لے۔ یہ
بات بالکل درست ہے کہ دوسروں کے بچوں کی اچھائی اچھائی نظر نہیں آتی، بلکے
انکی ہر برائی برائی ہی نظر آتی ہے۔ اگر وہی کام ہمارے اپنے بچے کر رہے ہوں
تو وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔ ہمارے بچے ہمیشہ اچھا ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ
ہمارے بچے ہمارا خون ہیں ہماری تربیت کا اثر ہوتے ہیں۔ مگر جب وہ غلط کر
رہے ہوتے ہیں تب ہم ان کے اوپر پردہ پوشی کر رہے ہوتے ہیں۔ جب یہی کام کسی
اور کا بچہ کر رہا ہوتا ہے۔ تو ہم اس کو اچھالتے ہیں اسی اچھائی اور برائی
کے درمیان چلتے چلتے چلتے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم اچھائی کو کھو دیتے
ہیں اس کو برا کہتے کہتے۔ جب ہم اس کو کھوتے ہیں تب اسکی برائی کم اچھائیاں
زیادہ نظر آتی ہیں۔ مگر ہم نے تو اس کو برا کہہ کہہ کہہ کر کھو دیا۔تب آپ
کے پاس صرف رہ جاتا ہے پچھتاوا تو اس ہمیشہ زندگی میں رہنے والے پچھتاوے سے
بچنے کے لیے ابھی سے ہوش کے ناخن لیں۔ عقل کریں۔ اپنے ساتھ کہنے والوں کی
عزت کریں تکریم کریں ان کا خیال رکھیں۔ انکا احساس کریں انکی قدر کریں وہ
آپکے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ ان میں خرابی بھی ہو گی مگر ان میں اچھائی بھی بہت
ہوں گی۔ آپ ایک پل کے لیے ان کے بارے میں منفی خیالات چھوڑ کر منفی سوچ
چھوڑ کر ایک دفعہ انکی اچھائی کی طرف بھی دیکھ لیں۔وہ شخص جو آپ کے سامنے
بیٹھا ہے جس کو ہر وقت آپ برا برا اور برا ہی کہتے ہیں ایک پل کے لیے اسکو
اچھے اور اچھے کے ساتھ بھی دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے جہاں اسکی پچاس خامیاں نظر
آرہی ہیں وہیں اسکی ستر اچھائیاں بھی نظر آجائیں۔ اگر اچھائیاں زیادہ ہیں
تو خامیوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ خامیوں کو اچھائی میں بدلہ جا سکتا
ہے۔مگر برا برا کہنے سے نہیں بلکے اس کی اچھائی کو اجاگر کر کے اس کو اچھا
بنانے آپ ہی اپنا فعل کردار ادا کیجئیے۔ ورنہ برا تو پوری دنیا کہتی ہے آپ
نے بھی کہا تو کیا فرق پڑا۔ یہی ہوگا ایک دفعہ وہ چلا تو جائے گا اور آپ کو
دے جائے گا نا ختم ہونے والا پچھتاوا تب آپ کہیں گے کاش میں اس سے معافی
مانگ لوں تو نہیں ہوگا۔ تب میں اس کو بدل سکوں تو نہیں ہوگا۔تب آپ کہیں گے
کاش تب میں یہ نا کرتا۔تو بھی نہیں ہوگا۔ اس کاش سے بچنے کے لییابھی سے
اپنے آس پاس رہنے والے ان تمام برے لوگوں کو جو آپ کو ہمیشہ ہی برے لگتے
ہیں ہر طرح سے برے لگتے ہیں ان کو ایک پل کے لیے اچھی نظروں سے دیکھ لیں ان
کے اندر بہت سی اچھائیاں بھی ہوں گی جو آپ دیکھنا نہیں چاہتے تو دیکھنے میں
کیا برائی ہے دیکھ لیں قبل اس کے کہ اس کو برا کہتے کہتے اس کو دنیا چھوڑنے
پر مجبور کر دیں۔
ایک شخص جیسے لوگ نفرت غصے کے قابل سمجھتے ہیں، جسے بات بات پر دھتکارا
جاتا تھا، جسے ہر بار ڈانٹ ڈاپٹ کر چپ کروایا گیا ہو، جو کسی کی بھی زندگی
میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا نا اپنے گھر والوں کی زندگی میں نا ہی
باہر کسی کی زندگی میں، مگر جب جسم سے روح نکلی، تو یہ دیکھ کر اگر وہ زندہ
ہوتا تو یقینناً حیران رہ جاتا۔۔ آج جو سب لوگ اس کے لیے رو رہے تھے۔ کل
اسی کو منحوس کیا کچھ نہیں کہتے تھے۔ آج جس کے لیے چیخ چیخ کر اونچی آوازوں
میں بین کر رہے تھے۔ کل اسی کو کہتے تھے کہ تم مر جاؤ تو کوئی تمہاری موت
پر ایک انسان بھی نا آنسو بہائے گا۔۔ اور آج اسی کی موت پہ اس کی تعریف پہ
زمین آسمان کے قلابے ملارہے تھے۔ پر اس وقت ان کے دلوں میں اس شخص کے لیے
جذبات کہاں تھے، تب ان کی محبت کہاں جاسوئی ہوئی تھی، جب وہ سب کی محبت کے
لیے ترستا تھا، سب سے بات کرنے کے لیے تڑپتا تھا، پر جب تک انسان زندہ رہتا
ہے، تب تک اس کی قدر نہیں ہوتی، جب جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے، جیسے
ہی وہ موت کی نیند سو جائے۔ تب ہوتی ہے انسان کی قدر، جو نفرت میں لپٹے
ہوئے وجود ہوتے ہیں وہ بھی کچھ دیر کے لیے ہی سہی اپنی دشمنی بھلا دیتے
ہیں۔ موت کی نیند اس قدر حیسن ہوتی ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ دشمن بھی
پل میں دوست بن جاتے ہیں۔ جب تک جسم میں روح ہے۔ سو سو لوگ آپ سے حسد کرتے
ہیں، جلتے کڑھتے دشمن بن جاتے ہیں۔ پر جیسے ہی یہ روح جسم سے پرواز ہوتی
ہے۔ تب پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی نفرت میں ڈوبے شخص سے محبت
ہوجاتی ہے۔ بس اک ذرا سی روح نکلنے کی دیر ہے وہ سب بھی ہو جاتا ہے جو وہ
اپنے جیتے جی دیکھنا چاہتا ہے۔
|