بجلی کی چوری ایک سنگین جرم

تحریر:ڈاکٹرمحمدعدنان،لاہور

بجلی کی کمی کی ایک وجہ بجلی کی چوری ہے جو بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے،ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوگا جہاں پر بجلی کی چوری نہ ہورہی ہو،اسی طرح مانگا منڈی لیسکوسب ڈویژن میں بھی بجلی چوری نہ رک سکی لیسکو سب ڈویژن کے عملہ کی ملی بھگت سے لاکھوں روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے جس کا خمیازہ عام شہری بھگت رہے ہیں لیسکو سب ڈویژن کے قابل میڑ ریڈر جو میڑ انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں وہ بڑی مہارت سے ڈیٹیکشن کا نام دے کر عام شہریوں سے کھاتا پورا کیا جاتا ہے تفصیلات کے مطابق مانگا منڈی لیسکو سب ڈویژن میں عملہ کی ملی بھگت سے لاکھوں روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ جو یونٹ چوری کیے جاتے ہیں ان کو ڈیٹکیش کا نام دیکر عام شہریوں کے بلوں میں ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے یہ کام بڑی مہارت کے ساتھ میڑریڈر جو میڑ انسپکٹر کے عہدے پر کام کرتے ہیں وہ بڑی بخوبی کے ساتھ یہ کام سر انجام دے رہے ہیں رہے وہ غریب جن کے کھاتے یہ ڈیٹکیش بل ڈالے جاتے ہیں ان کے پھر لیسکوسب ڈویژن میں چکر شروع ہو جاتے ہیں ان کو ہینڈل کرنے کے لیے بھی پھر وہی میڑ ریڈر جو میڑ انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں بڑی مہارت کے ساتھ پانچ چھ چکر لگواتے ہیں اور آخر کار ان کو آر او رائے ونڈ بھیج دیتے ہیں وہ غریب آر او کے دفتر کے چکر لگا کر تھک جاتا ہے تو آخر بجلی منقطع ہونے کے ڈر سے وہ بیچارا اپنا بل ادا کر دیتا ہے اگر شہریوں کی طرف سے معاملہ اچھالہ جائے تو بڑی مہارت کے ساتھ ایک گرینڈ آپریشن کا نام دے کر دس بارہ لوگوں کو پکڑکر اعلیٰ افسران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جاتا ہے آخر کار مرتا پھر غریب ہی ہے بجلی چور کبھی نہیں پکڑا جاتا یہ سارا ڈرامہ ایس ڈی او مانگا منڈی سید کلیم جعفر کی نگرانی میں کیا جاتا ہے، مانگا منڈی میں میڑ انسپکٹر تعینات کیا جائے اور کرپٹ ظالم عملہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پاکستان کے طول وعرض میں کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں سرکاری بل کی عدم ادائیگی کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ کہیں متعلقہ محکموں کے ملازمین کی ملی بھگت سے بجلی چوری کی جاتی ہے کہیں دھونس جما کر چوری کی جاتی ہے اور کہیں اسے پیدائشی حق سمجھ کر ناجائز طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے زمیں دار ہوں یا بڑے کارخانہ دار یا بڑے سیاست دان وہ بل کی ادائیگی کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ اکثرعلاقوں میں کنڈی لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے۔ اور متعلقہ ادارے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، کہیں انہیں آنکھیں بند رکھنے کا ’’نذرانہ‘‘ مل جاتا ہے اور کہیں انہیں بااثر افراد آنکھیں دکھا کر سینہ زوری کرتے ہیں۔بجلی چوری کروانے میں واپڈا ملازمین بھی ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں،واپڈا ملازمین اکثربااثرافرادکے ڈیروں اور ان کی فیکٹریوں ،گھروں کی ریڈنگ کم کرتے ہیں،اور غریب عوام کے بجلی کے بلوں میں اضافی ریڈنگ ڈال کر ان سے حساب کتاب پورا کیا جاتا ہے، سب ڈویژن مانگا منڈی میں بھی عرصہ درازسے یہی کچھ ہورہا ہے،لائن مین سے لے کر لائن سپریٹنڈنٹ تک اور پھر ایس ڈی اوتک پورے کا پورا عملہ ہی بجلی چوری کواپنے لئے باعث فخرسمجھتا ہے کیونکہ اس بجلی چوری کے عوض ان کو بھاری بھرکم پیسے ملتے ہیں ،جس سے وہ اپنی زندگی کو شاہانہ طورپر گزارتے ہیں جب کہ غریب عوام کوزائدبلوں کی ادائیگی کے لئے جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں،بعض اوقات ایس ڈی اوکے احکامات پر بھی غلط ریڈنگ کروائی جاتی ہے، میٹرریڈر مجبوراً یونٹ پورے کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ موبائل میٹر ریڈنگ سو فیصد کرنے کے لیے سب سے پہلے جہاں میٹر نہیں لگے ہوئے وہاں میٹر لگوائے جائیں۔ تمام خراب میٹر بغیر قیمت کے تبدیل کروائے جائیں اونچا ئی پر لگے ہوئے میٹر نیچے لگوائے جائیں، اس کے علاوہ چوری کی روک تھام کے لیے جدید اور سائنسی طریقے اپنائے جائیں۔ چوری روکنے کے لیے تمام فیڈروں پر کیبل لگوائی جائے۔ بجلی چوری روکنے کے لیے نئے بننے والے قانون پر عمل کروایا جائے، بجلی چوروں کو کڑی اور سخت سزا دی جائے۔ بجلی چوری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ناجائز فرمائش اور بھتا خوری بند کی جائے۔جن علاقوں میں میٹرنگ اسٹاف کم ہے ان کی کمی کو پورا کیا جائے اور بجلی چوروں کی ناجائز شکایت پر ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ ان کی جائز تحقیقات کروائی جائے۔
۔۔۔۔۔

 

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 63 Articles with 48612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.