کربلا کل بھی تھا آج بھی ہے !!

جمعیت العلماء ہند ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مانی جاتی رہی ہے ، آزادی سے پہلے بھی ، آزادی کے بعد بھی اس جماعت نے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ کیاہے ، حالانکہ اس جماعت سے دارالعلوم دیوبند کا براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے والے بیشتر علماء و قائدین اسی تنظیم سے جڑے جس کی وجہ سے مسلمانو ں کا ایک بڑا حصہ اس تنظیم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے ۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے جمیعت العلماء ہند کے سربراہان چاہے وہ مولانا ارشد مدنی ہوں یا پھر مولانا محمود مدنی دونوں نے ہی ملک کے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلے عام کھلواڑ کیاہے اور اس بات کا اعتراف خود انکی جمعیت سے تعلق رکھنے والے تمام علماء بھی کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں یہ علماء کھل کر جمعیت کی ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے میں خوف محسوس کررہے ہیں ، جن علماء نے جمعیت العلماء ہند کی ان حرکتوں سے ناراضگی کا مظاہر ہ کیا وہ تو جمعیت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرچکے لیکن جن لوگوں نے جمعیت کو مقدس جماعت مانتے ہیں یا پھر جمعیت سے انکا کچھ بول بالا ہوتا رہاہے وہ اس معاملے میں حق گو ئی کرتے ہوئے اپنی زبانوں کو تر کرنا حق نہیں سمجھا ہے اور وہ اب بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ جمعیت اچھی جماعت ہے ، یہاں سے کئی کام انجام دئے جاتے ہیں ، اس جماعت نے اکثر اہم مدعوں میں مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے لیکن آج کی بات کی جائے تو حق گو مانی جانے والی یہ تنظیم اب مسلمانوں کو گمراہ کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے ۔ پچھلے دنوں جمعیت العلماء ہند کے خود ساختہ سربراہ مولانا محمود مدنی جو سکریٹری تو کہلاتے ہیں لیکن کام صدر سے بڑھ کر خود انجام دیتے ہیں اور اس جمعیت کے صدر کو من موہن سنگھ کی طرح حاشیہ پر رکھا گیا ہے انہوں نے جنیوا پہنچ کر جس طرح سے کشمیری مسلمانوں کے تئیں لاپرواہی سے بیان دیا وہ جب جب آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو خون کھول اٹھتاہے کہ آخر کب انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو کشمیر میں محفوظ دیکھاہے ؟۔ جو مولانا حکومت کی دلالی کے لئے جنیوا جاسکتے ہیں کیا وہ مولانا کشمیری مسلمانوں کے حالات جاننے کے لئے دہلی سے سری نگر تک کا سفر نہیں کرسکتے ؟۔ جس مولانا محمود مدنی کو آر یس ایس کے نظریات میں نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے کیا اس مولانا کو ملک بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی استطاعت نہیں ہے ؟۔ ماب لنچنگ کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں ان وارداتوں کے خلاف مولانا محمود مدنی نے کیا اقدامات اٹھائے تھے ؟۔ انہوں نے انڈیا اسلام سینٹر پر کیا بات کرنے کے عالیشان جلسہ منعقد کیا تھا ؟۔ ہر رمضان میں سیاستدانوں کو بلا کر عیدملن کی تقریب منعقد کرتے ہوئے اپنی سیاسی موجودگی کا مظاہر ہ کرنے والے محمود مدنی نے کس بنیادپر کہہ دیا کہ کشمیری مسلمان محفوظ ہیں ۔ جب پارلیمنٹ میں عوام سے چنے گئے اسد الدین اویسی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اور اپنی سیاسی پارٹی کو ملک بھر میں پھیلانا چاہتے ہیں تو اس اسدالدین اویسی کو حیدرآباد میں ہی رہنے اور مسلمانوں کا قائد نہ بننے کی صلاح دینے والے محمود مدنی یہ بھی تو بتادیں کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کرنے والی جمعیت العلماء کے سکریٹری ہیں یا پھر حکومت ہند کے داخلاتی امور کے سکریٹری ہیں ۔ جب انہیں مسلمانوں کے قائدہونے پر ممبر آف راجیہ سبھا چنا گیا تو آج وہ صرف حکومتوں کی ہی تعریف کیوں کررہے ہیں ۔ شاید محمود مدنی بھول چکے ہیں کہ انہیں کہ آباواجداد انگریزوں کے خلاف حق بیانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو شہید کرنے کے لئے پیش کیا تھا ، لیکن آج وہی مدنی سلسلےوالے حکومتوں کی چاپلوسی کرتے ہوئےاقتدار کی شہد کھانے کی تیاری کررہے ہیں ۔اس وقت کوئی بھی مسلمان یہ نہیں چاہ رہاہے کہ مسلمانوں کی قیادت کرنے والے کو ختم کیا جائے ، عام مسلمانوں کی یہ چاہت ہے کہ پھر سے ایک مرتبہ ہندوستان میں ایسا انقلاب برپاہو جو انگریزوں کو ملک سے باہر کرنے کے لئے شروع کیاگیا تھا جس میں جمعیت العلماء کے سچے و بے لوث سپہ سالاروں نے نہ صرف ملک کے مسلمانوں کی قیادت کی تھی بلکہ ملک کا ہر ایک شخص جمعیت کے جہاد پر لبیک کہتے ہوئے انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا، جس کانگریس کو جمعیت نے عارضی طورپر تشکیل دیتے ہوئے ملک کی آزادی کے لئے ایک پلاٹ فارم بنایا تھا اسی کانگریس کو بعد میں مسلمانوں نے اپنا مسلک بنالیا اور خود جمعیت کے قائدین کانگریس کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑا ہونا شروع کرچکے ہیں ۔ آج ملک میں ایک بھی ایسا مسلم قائد نہیں ہے جو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف سخت آواز اٹھائے ۔ ہر کوئی حکمت کا نام لے کر بزدلی کا مظاہرہ کررہاہے ۔ حکمت کے نام پر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہاہے ۔ مولانا محمود مدنی اور ان کے جیسے علماء ہرگزبھی یہ نہیں چاہ رہے ہیں کہ انکی آمدنیوں واملاک پر حکومت کی تلوار پھرے ۔ جس طرح سے ڈاکٹر ذاکر نائک اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کو انکی املاک کا حساب دکھانے کے لئے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹس نے حملے کئے ہیں اسی طرز پر جمعیت کے عہدیداروں پر کسی طرح کا معاملہ نہ پیش آئے اسی لئے حکمت اپناکر خود کی حفاظت کی جارہی ہے نہ کہ مسلمانوں کی حفاظت ہوپائیگی ۔ مولانامحمود مدنی کو آریس یس کے نظریا ت میں نرمی دکھائی دے کر ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا ہے کہ امیت شاہ نے سارے ملک میں این آر سی کو نافذ کرنے کے لئے فیصلہ کرلیا ہے ۔ ابھی آر یس یس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ساتھ مولانا ارشد مدنی کی ملاقات ہوئے ایک ماہ بھی نہیں گزرا کہ گجرات اور جھارکھنڈ میں ماب لنچنگ کی وارداتیں پیش آنے کی باتیں سامنے آئی ہیں ۔ ہمیں اعتراض صرف اس بات کا ہے کہ اب جمعیت العلماء ہند مسلمانوں کی ترجمان بننے سے زیادہ حکومت کی میزبان بننے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور ایسی حکومت جس پر فرقہ پرستی و خون ریزی و فسطائیت کا ابلیس سوار ہے ۔ بعض لوگ اہل مدنی پر تنقید کرنے والے ہم جیسے لکھاریوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ ایک عالم دین کو کس بنیادپر تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ، کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جیسے لکھاری جمعیت کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن ہم جیسے لکھاری سوال کرنا جانتے ہیں اور سوال کرنا ہمارا حق ہے اور ہمارا پیشہ ہے۔ ان تمام سوالات کے جوابات مدنی صاحب یا انکے حواریوں نے سوشیل میڈیا میں دئے ہیں وہ ناقابل قبول ہیں اور بعض حواریوں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جیسے کہ وہ ابوالمسلم نہیں بلکہ ابوالجہلاء ہیں ۔ محمود مدنی ہوں یا ارشد مدنی ، میں ہوں یا آپ ۔ عوام کو چاہئے کہ وہ کسی کا بھی اس وقت تک ساتھ دیں جب تک کہ وہ حق پر رہیں ۔ اگر حق پر رہنے والوں کا ساتھ دینے کے بجائے ناحق کا ساتھ دیتے رہیں گے اس وقت تک کربلا کے جیسے حالات پیدا ہوتے رہیں اور ہر حق کی لڑائی میں حضرت حسین کی طرح کوئی نہ کوئی شہید ہوگا اور یزید جیسے لوگ عارضی طورپر کامیاب ہوجائینگے اور اہل یزید بھی اپنے آپ کو حق پرست کہلائینگے ۔ کربلا کل بھی تھا آج بھی ہے ، حق کل بھی جیتا ہے آج بھی جیتے گا ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.