گھوسٹ ملازمین صرف شہر قائد کے بلدیاتی اداروں میں نہیں ہیں

 گھوسٹ ملازمین کا مسلسل پرچار کرنے والوں کے دامن بھی صاف نہیں۔ صرف کراچی کے بلدیاتی اداروں میں گھوسٹ ملازمین نہیں بلکہ اندرون سندھ کے بلدیاتی ادارے بھی اس فہرست کا حصہ ہیں لیکن افسوس صدافسوس کہ وہاں کےمئیرزایم کیوایم کےنہیں ہیں سندھ کےبلدیاتی اداروں میں (دل پہ مت لےیار) کےمصداق چونکہ کرپشن نہیں ہوتی ہےاس لیئےاس پرکوریج بھی کم ہوتی ہےاور حالیہ پیش رفت سابق ڈی جی پارک لیاقت قائمخانی کی صورت ایسی ہوئی ہےکہ بلاوجہ کاخالہ کلثوم کےکنبہ کی اسٹوری بناکرپیش کردی گئی ہےیہ بات ”فی الحال“ سمجھ سےباہرہےکہ جب یہ سارےدھندےکررہاتھااس وقت سب پکنک پرگئےہوئےتھےنیک نیتی اس وقت نظرآتی جب سارا مال بنانےسےپہلےہی اس گندے دھندے کوبند کراتے منہ میں دہی جماکربیٹھےہوئےنہیں ہوتے جب لیاقت قائمخانی کی خانقاہ سے فیض ملنابندہوا اورمال غنیمت میں بے پناہ اضافہ ہوگیاتو پانی کومم اور روٹی چوچی کہنےوالے اچانک خواب غفلت سےجاگےاورمعرکہ سرکرلیا سلام ایسی پھرتیوں کوجوکھبی بھی وقت پردکھائی نہیں دیتی ہے نیب نےلیاقت قائمخانی کو جعلی اکاؤئٹنس کیس میں گرفتار کیاہےاور اس کےراستےکم ازکم مئیرکراچی یاسابق ناظم کراچی کی طرف جاتےدکھائی نہیں دےرہےہیں لیکن کرنےوالےمعصوم اس پربھی سیاست وحماقت کررہےہیں اصل تبرکات اور فیض یابی کاتعلق کہیں دور سےملنےکی امیدہے خیرجانےدیں اصل موضوع کی طرف آتےہیں ریٹنگ کےلیئےتھوڑا سا تڑکہ لگانےکی کوشش کی تھی موجودہ صورتحال میں اونٹ اس مرتبہ بھی کسی کروٹ بیٹھے گا یا نہیں ؟، بلدیاتی اداروں میں گھوسٹ ملازمین کی تلاش اور دفتری اوقات کار کی پابندی آج کل اہم موضوع کے طور پر سامنے آئی ہوئی ہے جس کی اہم وجہ سندھ حکومت کےسرپر 149/4 لٹکتی تلوارہے وزیر بلدیات سندھ سیدناصر حسین شاہ بھی ایکشن لینےشروع کیئےہیں وزیر بلدیات سندھ نے سندھ کے بلدیاتی اداروں کو متبنہ کیا ہے کہ وہ دفتری اوقات کار کی پابندی کرنے کے ساتھ شہریوں کے مسائل حل کرنے میں اپنا وقت صرف کریں جبکہ ایک مرتبہ پھر گھوسٹ ملازمین کا معاملہ سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے جس کا سد باب تاحال نہیں کیا جا سکا ہے وزیر بلدیات سندھ نے بلدیاتی اداروں میں موجود گھوسٹ ملازمین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جو کام کرے گا وہ ہی تنخواہ پائے گا گھوسٹ ملازمین گھروں میں ہی قید کر دئیے جائیں گے جبکہ دیگر تفصیلات کے مطابق کراچی سے زیادہ گوسٹ ملازمین سندھ کے بلدیاتی اداروں میں موجود ہیں جو بمشکل بلدیاتی اداروں کا رخ کرتے ہیں کراچی کے بلدیاتی اداروں میں آپریشن کے بعد گھوسٹ ملازمین کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں میں رہ گئی ہے اور وہ بھی تنخواہوں سےمحرومی وتاخیر کاسامنا کررہے ہیں اور ان ملازمین کو بلدیاتی اداروں کے سربراہان خود بوجھ محسوس کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مختلف نوعیت کے دباؤ کی وجہ سے وہ ایسے ملازمین کو نکالنے سے قاصر ہیں جبکہ بلدیاتی اداروں میں ملی بھگت سے اس ضمن میں پیسے بٹورنے کی بھی اطلاعات ہیں اس کے برعکس سندھ کے بلدیاتی اداروں میں آدھے آدھے کی بنیاد پر گھوسٹ ملازمین کی مصدقہ اطلاعات ہیں جو سیاسی ودیگر چھتری اوڑھے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنے کے ساتھ اپنے اداروں کے افسران کو بھی خوش رکھے ہوئے ہیں،ذرائع کے مطابق دادو،ماتلی اورگھوٹکی سمیت دیگر سندھ کے بلدیاتی اداروں میں ڈیوٹیوں پر موجودملازمین کی تعداد محض دس فیصد ہے اور ان حقائق کی موجودگی میں کراچی کو خصوصی طور پر بدنام کرنا مناسب نہیں دکھائی دے رہا ہے، کراچی میں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ جو کہ سندھ حکومت کے ماتحت اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اس میں افسران کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے افسران کے باوجود یہ ادارہ تاحال شہر کو صاف نہیں کرسکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ سوئپنگ اسٹاف میں سے 60 فیصد کا ڈیوٹیوں پر موجود نہ ہونا ہے، حاضریوں کیلئے لگائی گئی تھمب مشینیں بھی ان گھوسٹ ملازمین کی بیخ کنی میں مددگار ثابت نہیں ہو سکیں اور اس عمل کی وجہ سے کراچی میں سوئپنگ کا تصور تیزی سے دم توڑتا جا رہا ہے کراچی کی بلدیاتی اداروں کی کونسلوں میں موجود اراکین کونسل عموما اپنی کونسل میں یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں اپنے علاقوں میں سوئپنگ کیلئے اسٹاف میسر نہیں ہے جبکہ ماہانہ درجنوں سوئپرز کی تنخواہیں یوسی کے لحاظ سے جاری کر دی جاتی ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ سوئپنگ اسٹاف کو کنٹرول کرنے میں بورڈ تو بورڈ منتخب بلدیاتی نمائندگان بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں اسکے پیچھے بھی ملی بھگت اور معاونت کا کردار کارفرما ہے ان تمام حقائق کی روشنی میں سابق وزیر بلدیات سندھ سعیدغنی جو بڑی آسانی سے یہ کہہ گئے تھے کہ گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ کریں گے لیکن اب موجودہ وزیربلدیات سیدناصرحسین شاہ کو کو یہ ذہن میں رکھنا اور منظم پالیسی مرتب کرنا ہوگی کہ انہیں کس طرح بلدیاتی اداروں سے گھوسٹ ملازمین کا قلع قمع کرنا ہے کیونکہ انہیں اس اقدام کو یقینی بنانے کیلئے کئی قسم کی رکاوٹیں درپیش آئیں گی، اور وہ کس طرح سندھ کے بلدیاتی اداروں میں کاروائی کرسکیں گے گھوسٹ ملازمین بلدیاتی و شہری اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اگر ان کے خلاف حقیقتًا کاروائی عمل میں لائی گئی تو کروڑوں روپے کی بچت کی جاسکتی ہے ممکن ہے یہ بچت اربوں تک پہنچ جائے اگر کاروائی کا دائرہ کار پورا سندھ ہو.لیکن اس عمل میں اگرگہن کےساتھ گہیوں والی مثال قائم کی گئی تو یہ بہت غلط ہوگاکیونکہ شہرقائدکےشہری بلدیاتی اداروں میں یہ الزامات ملازمین کےماتھے لگادئیےگئےہیں المیہ مزاحیہ یہ بھی ہےکہ سب کو بلدیہ عظمیٰ کراچی۔ادارہ ترقیات کراچی میں گھوسٹ ملازمین نظرآتےہیں-
 

Syed Mehboob Ahmed Chishti
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishti Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishti: 34 Articles with 29534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.