چچا ماموں خالو یہ وہ الفاظ ہیں کہ جن کی گونج اور اہمیت
اج تک میرے زہن میں محفوظ ہے۔ میرا اشارہ حقیقی رشتے نہیں۔ بلکے یہ الفاظ
محلے کے مرد حضرات کے لے استعمال کیے جاتے تتے۔ اب بھی یہ الفاظ بولے جاتے
ہیں۔ ۔۔مگر افسوس۔ ۔۔۔صد افسوس۔ ۔ کہ اس so called مہذب اور ترقی یافتہ
معاشرے میں ان الفاظوں کا کویء حقیقی وجود ہے۔ نہ ہی بھرم۔ ۔۔۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک محلہ ایک حفاظتی حصار کی مانند ہوتا تھا۔ جہاں سب
محفوظ ہوتے ھتے۔ جہاں ایک کا بچہ سب کابچہ اور زمہ داری تصور ہوتا تھا۔ مگر
کیا کہنے اس تہزیب یافتہ معاشرے کے ۔۔۔۔کہ جہاں ننھی معصوم کلیوں کو جنسی
زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی لعشوں کے ٹکڑے ٹکڑےکر کہ کبھی دریا برد تو
کبھی ویرانوں اور قبرستانوں میں پھنکنے والے درندے جب قانون کی گرفت میں
آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ محلے کے بندے کا ہی کام ہے۔ جس کو وہ معصوم
یقینا انہی ناموں سے پکارتا ہو گا جنکا زکر میں نے ابھی کیا۔ ۔ ۔۔۔مگر
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے۔ ۔۔۔اس بچے کا جو اس درندے اور
شکاری کے ہاتھوں شکار ہو جاتا ہے؟ ۔۔۔
والدین کا؟ جس اپنی معصومیت میں اپنے بچوں کو محلے کے ہر شخص سے ملنے کا
کہتے ہیں؟ ۔۔۔کہ"بیٹا یہ آپ کے انکل ہیں۔ ۔۔وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔
یا پھر یہ معاشرہ اس کازمہ دار
ٹھرایا جاۓ ۔۔۔جو جوں جوں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے توں توں اخلاقی پستی
کی نئ نئ مثالیں رقم کر رہا ہے۔ ۔۔۔
میری ناقص راے میں ہم سب کو بدلتے اور بگڑتے ہوے حالات کے پیش نظر اپنے
اپنے کردار پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ۔۔
والدین پر بھاری زمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے کھل کر بات کریں۔
۔۔انکو بتایں کہ اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔اساتزہ اس سلسلے میں
انتہائ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بچوں کی رہنمائ کرہں۔ ۔نصاب کے علاوہ
بچوں کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ترغیب دی جائے۔ ۔۔۔۔محلے کی سطح پر
کمیٹیز بنائ جایں اور اپنے تئ بچوں کی حفاظت کے اقدامات کئے جائیں ۔۔۔آنکھیں
اور کان ہمہ وقت کھلے رکھے جاہیں۔ ۔۔سب سے بڑھ کر حکومتی پالیسیوں اور
اقدامات کو بہت موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔ ۔جب تک معاشرے میں یہ یقین نہں
ہوگا کہ اس جرم کرنے پر قانون بہت سخت ہے۔ ۔۔اور سخت سزا دیتا ہے۔ ۔۔ اسوقت
تک نہ ایسے غلیظ زہن محتاط ہوں گے نہ ہی معاشرہ انکے شر سے محفوظ ہو گا۔
۔۔۔اور بچوں کی حفاظت کا خواب خواب ہی رہے گا۔ ۔۔۔ |