نگاہ سلطان شناس

روئے زمین پر زمانہ قدیم سے ہی بشری مخلوق نے ایک دوسرے کو مختلف معاملات و مسائل سمجھانے کی غرض سے حکایات کو اپنا رکھا ہے۔صدیوں تک یہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں ۔ان کی بنیاد کس نے رکھی اور انھیں ضبط تحریر میں کب لایا گیا اس حوالے سے کوئی حتمی رائے تاریخ کے اوراق پر نظر نہیں آتی ۔البتہ یہ بات طے ہے کہ خطہ زمین پر موجود تما م ممالک ‘براعظموں ‘اور معاشروں کے ادب میں حکایات موجود رہیں ہیں اور بنی آدم ہزارہا برس سے ان حکایات ہی کے سہارے اپنی نسلوں کی روحانی ‘اخلاقی و ذہنی پرورش کرتا آیا ہے۔

حکایات کا قیمتی ذخیرہ فارسی ادب کی زینت ہے۔جن میں حکایات رومی کو گراں قدر مقام حاصل ہے۔مولانا روم نے حکایات رومی میں بت شکن کا لقب اختیار کرنے والے عظیم مسلم فاتح سلطان محمود غزنوی کا ایک واقعہ درج کیا ہے۔ایک دفعہ محمود غزنوی اپنی رعایا کا حال دریافت کرنے کی غرض سے سادہ لباس میں گشت کے لیئے روانہ ہوئے۔دوران گشت انھیں چوروں کا ایک دستہ ملا جنھیں دیکھ کر بادشاہ سلامت نے کہا میں بھی تمہی میں سے ہوں۔پس چوروں نے انھیں شامل کر لیا۔پھر مشاورت کا آغاز ہوا(پرانے وقتوں کے تو چور بھی قدرے بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ اپنی اپنی عقل پر غرور کے بجائے مشاورت کیا کرتے تھے جب کہ خیر سے ارض وطن میں تو جس کس و ناکس کے ہاتھ میں عنان اقتدار آیا اپنے آپ کو مختار کل سمجھ بیٹھا ۔عربی کی مثل مشہور ہے:جس نے اپنی عقل پر غرور کیا گمراہ ہوا)اور ہر چور اپنا ہنر بیان کرنے لگا۔ ایک نے کہا میرے کانوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ میں کتے کی صدا کو سمجھ لیتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔دوسرا گویا ہوا کہ میں شب تاریک میں جسے دیکھ لیتا ہوں دن کے وقت بھی اس کی پہچان کر لیتا ہوں۔ تیسرے نے اپنا ہنر بتلاتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ہاتھوں سے تواناو مضبوط دیوار میں قدغن لگا لیتا ہوں۔ چوتھے نے کہا میری ناک میں یہ خا صیت پائی جاتی ہے کہ میں سونگھ کر بتلا سکتا ہوں کہ زمیں کے کس حصے میں خزانہ دفن ہے۔ پانچویں نے کہا میں بلندوبالا قلعہ و محل میں اپنے پنجہ کے زور سے کمند کو قلعہ کے کنگرہ میں مضبوط گرہ لگا لیتا ہوں اور پھر اس کی مدد سے قلعہ کے اندر داخل ہو جاتا ہوں۔

ان میں سے ایک چور نے تجسس کے ساتھ بادشاہ سے پوچھا کہ آپ کی ذات میں کون سا ہنر پنہاں ہے۔بادشاہ نے کہا میری داڑھی میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کو اشارہ کر کے بازیاب کروا لیتی ہے۔

قصہ مختصر تمام چور شاہی محل میں داخل ہوئے‘اپنا اپنا کرتب دکھلایا اور چوری کا مال آپس میں بانٹ لیا۔ سلطان نے ہر ایک کا حلیہ خوب جانچا خود شاہی محل میں واپس آگیا۔بادشاہ نے اس شب کی سحر ہونے پر گزشتہ شب کا قصہ عدالت میں سنایا اور محافظوں کو حکم دیا کہ سب کو گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنا دو۔ جب تمام چور ہتھکڑیاں پہنے حاضر ہوئے تو ہر ایک موت و خوف کے زعم میں تھرتھرانے لگا۔لیکن وہ چور جو تاریکی میں دیکھ کر دن کو پہچان لیا کرتا تھا اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔اس پر بھی خوف تو تھا ہی لیکن امید کی کرن کا سایہ بھی بہر طور موجود تھا۔سلطان نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سب کو جلادوں کے سپر د کر کے ان کا سر تن سے جدا کردیئے جائیں۔یہ سنتے ہی دیدہ معرفت رکھنے والے چور نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا ہم میں سے ہر ایک مجرم نے اپنے مجرمانہ ہنر کی تکمیل کر لی ہے اب خسروانہ ہنر کا حسب وعدہ ظہور فرمائیے ۔میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔لہٰذا اپنی داڑھی کو جنبش دے کر ہمیں نجات دلوائیے۔

محمود غزنوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تم میں سے ہر ایک کے کمال ہنر نے تمہاری گردنوں کو قہرو غذب میں مبتلا کر دیا۔بجز اس بشر کے کہ یہ سلطان کی معرفت والا تھا۔اس کے دیدہ نے شب کی ظلمت میں مجھے دیکھ لیا تھا۔اب اس نگاہ سلطان شناس کے بدلے تم سب کی گردن زدنی کے بجائے معافی کا اعلان کرتا ہوں کہ مجھے اس معرفت والی نگاہ سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اپنا ہنر ظاہر نہ کروں۔مولانا روم رقمطراز ہیں کہ اس واقعے سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ بادشاہ حقیقی (اللہ)جہاں کہیں بھی جرم کا ارتکاب کیا جائے وہ ساتھ ہوتا ہے اگرچہ کسی مصلحت کی بناء پر فوری سزا عمل میں نہ لائی جائے۔

اور اس سے دوسر ا سبق یہ ملتا ہے کہ جب تلک نگاہ سلطان شناس میسر نہ ہو گی ہم (عوام پاکستان)اپنے آپ کو قہر‘بدامنی‘دہشت گردی‘متزلزل معیشت‘گروی خارجہ پالیسی‘بے روزگاری‘مہنگائی‘توانائی کے بحران اور کوڑیوں کے عوض بکتی قومی ناموس کے عذاب میں مبتلا پائیں گے۔چھ دہائیں گزر گئیں ہمیں سلطان شناسی کا ہنر نصیب نہ ہو ا (یا نہ آزمایا؟؟)۔بیشتر ہم نے اپنے حق رائے کے ذریعے لٹیروں‘ جاگیرداروں‘ راہزنوں اور قومی ناموس سے نابلد لوگوں کی ایوان تلک رسائی ممکن بنائی۔جب تلک ہم معمولی مفادات‘ نوکریوں کے مذموم جھانسوں‘تھانہ کلچر‘اور وڈیرا شاہی کے عتاب سے اپنی سوچ کو آزاد نہیں کروا لیتے تب تلک ہم بکتے رہیں گے‘کرپشن ‘مہنگائی اور لاتعداد مسائل کا شکار رہیں گے۔وہی قومیں سنبھل پاتی ہیں جو حکمرانوں کا انتخاب کرتے وقت اپنی ذات سے ماورا ہو کر فقط قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں۔یاد رکھیئے اچھے حکمران ہی اچھی قوم بناتے ہیں۔مشہور فرانسیسی فاتح نپولین بونا پارٹ جس کا شمار دنیا کے پانچ بڑے وائیر میں ہوتا ہے کہتا ہے:”اچھے حاکم بری قوموں کو سنوارتے ہیں‘اگر بھیڑوں کے ریوڑ کو شیر کی قیادت مل جائے تو وہ معمولی ریوڑ کو لشکر میں بدل دیتا ہے اور اگر شیروں کی باگ ڈور کسی بھیڑ کے ہاتھ میں تھما دی جائے تو وہ شیروں کو گھاس کھانے پر مجبور کر دیتی ہے اور جو قوم اپنے لیئے اچھے رہنما منتخب نہیں کرتی وہ کبھی اچھی قوم نہیں بن سکتی “۔دوسرا اس نے کہا تھا:”اگر تم کسی بر ی قوم کو اچھا بنا نا چاہتے ہو تو اس کے صحافیوں اور جرائد(اخبارات)کو اچھا بنا دو وہ قوم اچھی بن جائے گی“۔ہمیں رہنما کے انتخاب کے ساتھ ساتھ مفاد پرست ‘محکوم و اخلاقیات سے عاری ذرائع ابلاغ کی جہاں بیخ کنی کرنا ہو گی وہاں حق پرست و آذاد اظہار رائے کرنے والوں کا ساتھ بھی دینا ہو گا۔اور یہ سب اسوقت ہی ممکن ہو گا جب ہم دیدہ معرفت (نگاہ سلطان شناس )سے کام لیں گے اور دیدہ معرفت حاصل کرنے کے لیئے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔۔لازماً بدلنا ہوگا۔اپنے آپ کو اس اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا جس کا وجو د آج سے چودہ سو برس قبل اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر تھا۔جب مسلمانوں کی تہذیب خالص اسلامی تہذیب تھی ۔اس اسلام میں جس میں برداشت ‘حب الوطنی ‘جذبہ ایثا ر ‘خدمت خلق اور احترام انسانیت کا پہلو نمایاں تھا۔ جس میں کسی بھی سطح پر انتہا پسندی کا شائبہ تک نہ تھا۔مسلم تو کجا غیر مسلم بھی مسلمانوں کی چھتری تلے عافیت محسوس کرتے تھے۔جب بریلوی ‘دیوبندی ‘اہل حدیث کی اصطلاح کا وجود ہی نہ تھا۔فقط مسلم لفظ تھا فقط مسلم ۔جب گلی گلی ندا لگانے باوجود زکوتہ لینے والا کوئی نہ ہو تا تھا۔جب اسلام کا دائرہ کار محض عبادت گاہوں تلک محدود نہ تھا بلکہ ہر مسلمان نے اپنے اوپر لاگو کیا ہو ا تھا۔مشہور ضرب المثل ہے
charity begins at home
ترجمہ:درویشی گھر سے شروع کرو۔

جب ہم تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے شروع کریں گے تب ہی انقلاب کی راہ ہموار ہوگی۔اور پھر انقلاب آکر رہے گا۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188509 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.