" پنجاب پولیس "

میں پولیس کو سوفٹ ٹارگٹ کہتا ہوں۔ہم ہزاروں میں سے کسی ایک کی ایک غلطی پر ایسی ایسی گالیاں اور طنز نجانے کیا کیا ان تمام شہیدوں کی ان ہزاروں جوانوں کی جو دن رات ہماری حفاظت پہ مامور ہیں کی ان کی فمیلیز کی دل آزاری کرتے ہیں۔ان شہیدوں کا بھی احساس نہیں کرتے میرا پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے اپنے بھی عمومی طور پر پولیس کے بارے یہ ہی خیالات تھے۔ لیکن سی پیک کے کچھ پروجیکٹس کے دوران کچھ جوانوں کے ساتھ ذیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور ان کے حالات جاننے کا بھی کالم میں بغیر اجازت نام لینا مناسب نہیں سمجھتا۔ جن حالات میں وہ ڈیوٹی کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔میانوالی کا رہنے والا وہ جوان جس کے چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔جس سے وہ تمام پریشانیاں اور تکالیف چھپا لیتا تھا۔ایک دن صبح وہ فون پر کسی سے منت سماجت کر رہا تھا کہ مجھے ایک روز کی ایمرجنسی چھٹی دی جاے۔میرا خیال ہے دوسری طرف سے اس کو مسلسل انکار کی وجہ سے وہ انتہائی بیچارگی کی کیفیت میں مضطرب دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر وہ ہی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اسی پروقار طر یقے سے سلام لیا ۔ لیکن میرے دل میں ایک خلش سی رہ گئی کہ اس نوجوان کو ضرور کوئی بڑی پریشانی ہے۔بہت اصرار کرنے پر اس نے بتایا کے اس کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اس نے گھر جانا ہے بوڑھے والدین اس قابل نہیں کہ بچے کو ہسپتال لے جا سکیں۔ میں نے پوچھا پھر چھٹی ملی؟ اس نے کہا، سر جواب یہ آیا ہے کہ نفری کم ہے جب تمھارے ساتھ کا بندہ ڈیوٹی پہ آئے گا تو تب ہی تم جاسکتے ہو ۔ میں نے پوچھا کیا کرو گے پھر۔۔۔۔ اس نے انکھیں ملاے بغیر ہی کہا کہ میں نوکری نہیں چھوڑ سکتا میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔ لہذا میں نہیں جا سکتا مجھ سے بڑا ججھکتے ہوئے ایک درخواست کی کہ میرا بیلنس ختم ہوگیا ہے۔ ایک فون کروا دیں گے۔میں اسے فون دے کر اندر دفتر چلا گیا کچھ دیر بعد وہ اداس سا مجھ کو فون لوٹا گیا۔ میں بھی کام میں مصروف ہو کر بھول گیا۔ رات کو 12 بجے کہ قریب مس کال آئی نمبر نیو تھا پر کال بیک کرنا جاب کی مجبوری تھی۔
میں نے پلٹ کے کال کی تو کسی بزرگ نے میری ہیلو سننے سے پہلے ہی" پتر ڈاکٹر اندا اے جے کل خون تبدیل نیی کیتا تہ بچہ بچ نہں سکدا" اور دوسری طرف رونے کی آوازیں میں نے بڑی مشکل سے بتایا کہ میں آپکے بیٹے کا دوست ہوں یہ اس کا نمبر نہیں ہے۔ آپ مجھے بتائیں کیا مسئلہ ہے بچے کو پہلے وہ شرمندہ ہوے بعد میں بتایا کہ بچے کو تھلیسمیا کا مسئلہ ہے اور خون تبدیل ہونا بچے کی زندگی کی ضمانت ہے ۔ مجھے اس نوجوان کی مسکراہٹ اپنے دل میں چبھتی محسوس ہوئی۔ نجانے کون سی طاقت نے مجھے رات کہ اسی پہر اٹھنے پہ مجبور کیا گھر کے گارڈ کو گاڑی میں بٹھایا راستے میں اسے سمجھایا کہ کل یہاں ڈیوٹی کرنی ہے ۔ اور دفتر کے باہر آکر اسے کال کی اس کو بتایا کے تمھارے گھر جا رہے ہیں۔ اس کی انکھوں کی نمی میں اپنی انکھوں کی نمی کی وجہ سے نہیں دیکھ پایا ۔ رات کو 4 بجے موسی خیل کے پسماندہ علاقے میں ایک چھوٹے سے گھر میں چار پائی پہ زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار معصوم بچہ ۔۔۔۔ ہسپتال اور خون کا دستیاب نہ ہونا وہ ایک الگ اور تکلیف دہ داستان ہے۔ واپسی کے سارے سفر میں مجھے وہ سب باتیں یاد آئی جو ہم ان پولیس والوں کے لیے کرتے تھے۔ سر شرم سے جھک گیا۔ تب سے روز میں اس کو سیلوٹ کرتا جب تک ہم ساتھ رہے ۔ میرے دل میں اپنے ان ہزاروں جوانوں کی عزت اور بڑھ گئی۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ چند برے لوگوں کی وجہ سے پوری پنجاب پولیس کو برا کہنا بڑی ذیادتی ہے۔ ان فرض شناس افسروں اور جوانوں سے ان شہداء سے ان کے اہل خانہ سے ۔ آج بھی اسے چھٹی نہیں ملتی اج بھی وہ اور اس کا بیٹا حالات سے لڑ رہے ہیں۔ اسی ہمت اسی مسکراہٹ کے ساتھ۔ !!!

تابش غلام قریشی
( کسی افسر کو اس نوجوان کی مدد کرنا مقصود ہو تو مندرجہ ذیل ای میل سے رابطہ نمبر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
[email protected]
 

Tabish Ghulam Qureshi
About the Author: Tabish Ghulam Qureshi Read More Articles by Tabish Ghulam Qureshi: 2 Articles with 1365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.