چودہ سال پہلے چائنیز دوستوں سے پہلی ملاقات

ان دنوں میں لاہور کینٹ میں ایک نجی شپنگ کمپنی میں ملازمت کر رہا تھا۔ شام کو دفتر سے واپسی پر گھر سے حکم نامہ آیا کہ گھر آتے ہوے کچھ فروٹ لیتے آنا۔ بہت رش کی وجہ سے راستے میں کسی جگہ بھی رکنے کی ہمت نہ کر سکا لہذا نہ چا ہتے ہوے بھی سوچا کہ گھر کے نزدیک ہی جو فروٹ کی ریڑھی ہے۔ اس سے لے لیا جائے۔ جہاں سے کبھی اچھا پھل مناسب قیمت میں نہیں ملا۔ ریڑھی پر آج کچھ ذیادہ ہی رش تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی آواز لگائی ۔۔ بابا جی!!! کلو سیب ایک تربوز اور ایک درجن کیلے دے دیں ذرا صاف صاف۔ بھائی جی صاف ہی ہے ہور سرف نال دھو دیاں۔ یہ کہہ کہ وہ پھر مصروف ہوگئے آج مجھے لفٹ ہی نہیں کرائی۔ ان کے پاس 2 چا ئنیز کھڑے اشاروں کی زبان میں اور موبائل کیلکیولیٹر پر کچھ حساب سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں چائنیز کو دیکھ کر خوشی حیرت اور تجسس میں گاڑی سے اتر کر معاملا سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔ آواز آئی ۔۔ پائی جی تسی اپنا کم کرو سانو اپنا کم کرن دیو!!! میں نے نوٹس کیا کہ 15 روپے کلو والا تربوز (2006 میں) وہ بابا جی ان چا ئنیز میاں بیوی کو 125 روپے کلو ٹکا رہے تھے۔ میں نے مداخلت کی کہ بابا جی اج نہیں تو کل انکو پتہ لگ ہی جانا ہے۔ اس بے ایمانی کا اپکی اور ہمارے ملک کی کتنی بدنامی ہوگی زرا سے پیسوں کی وجہ سے ۔ بابا جی بڑے غصے سے بولے ۔۔ او پائی جان تسی اپنا کم کرو کیوں ساڈی روزی خراب پے کردے او ۔۔۔ میں نے اشاروں میں اور ان کے موبائل کے کیلکیولیٹر میں بڑی مشکل سے سمجھایا کے بھائی جان تسی لٹے جا رہے ہو
بہت ذہین تھے فورا سمجھ گئے بابا جی کو فروٹ واپس کیا میرا اشاروں میں شکریہ ادا کیا اور بڑی گرمجوشی سے گلے ملا جیسے پردیس میں کوئی اپنا مل جاے۔ اشاروں سے بتایا کہ سامنے والے گھر میں ہی شفٹ ہوے ہیں۔نو انگلش نو اردو

پنجابی تھوڑا تھوڑا۔۔۔ کھبہ سجھہ اگے پیچھے۔۔۔۔ میں بڑی حیرت سے یہ الفاظ ان کے منہ سے سن رہا تھا۔ میرا گھر پوچھنا چاہ رہے تھے۔اگلی ہی گلی میں میرا گھر تھا سو سمجھا دیا ۔ اگلی صبح 6 بجے بیل بجی تو وہ چا ئنیز بھائی صاحب 2 عدد عجیب سے چینی نسل کے کتوں کے ساتھ میرے دروازے پہ کھڑے تھے۔بڑی مشکل سے ہاتھ جوڑ کے سمجھایا کہ آج نہیں کل سے میں چلوں گا۔ اور اس دن سے ہم آج تک نہ صرف اچھے فیملی فرینڈ ہیں۔ بلکہ ایک ساتھ کام بھی کرتے ہیں۔اور آج بھی ان ہی بابا جی سے فروٹ لیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ساتھ وہ بھی ترقی کر کہ ریڑھی سے دکان میں شفٹ ہوگئے ہیں۔اور آج بھی بہت شرمندہ ہوتے ہیں۔ جب بھی ہم اس واقعہ کا زکر کرتے ہیں۔

تا بش غلام قریشی( جاری ہے )
 

Tabish Ghulam Qureshi
About the Author: Tabish Ghulam Qureshi Read More Articles by Tabish Ghulam Qureshi: 2 Articles with 1137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.