موٹرسائیکل کو پاکستان میں متوسط طبقے کی سواری سمجھا
جاتا ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
|
|
دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو پاکستانی عوام کے ذہن میں پہلا خیال یہی
آتا ہے کہ آئندہ ماہ پیٹرول مزید کتنا مہنگا ہو گا اور یہ مہنگائی ان کے
بجٹ کو کیسے متاثر کرے گی۔
پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے مختلف
کمپنیوں نے بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلیں متعارف کروائیں لیکن ان میں سے
اکثر درآمد شدہ تھیں اور وہ مہنگی ہونے کی بنا پر عوام میں مقبول نہ ہو
سکیں۔
تاہم اب پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں دو اداروں نے باہمی
اشتراک سے پاکستان میں برقی موٹرسائیکلوں کی تیاری کا عمل شروع کیا ہے۔
لاہور میں قائم الیکٹرک موٹرسائیکل کمپنی اوج ٹیکنالوجیز کے سی ای او عثمان
شیخ نے بی بی سی کو بتایا وہ پاکستان میں الیکٹرک بائیک تیار کرنے والے
پہلے اسمبلرز ہیں جس نے اسے اپنے ڈیزائن سے تیار کیا ہے۔
ان موٹرسائیکلوں کو مارکیٹ میں پہلے سے مقبول جاپانی ڈیزائن کی طرز پر تیار
کیا جا رہا ہے یعنی ان کی شکل اور ڈیزائن تو عام موٹرسائیکلوں جیسا ہی ہے،
بس پٹرول انجن کی جگہ ان میں الیکٹرک انجن لگایا گیا ہے۔
|
|
ان کے مطابق مستقبل بجلی سے چلنے والی ٹیکنالوجی کا ہے اور کئی ملک ابھی سے
اس کی تیاری کر رہے ہیں اور اسی لیے چین، جاپان اور یورپ کے کئی ملکوں میں
الیکٹرک گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بن رہی ہیں۔
عثمان شیخ نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے پٹرول سے چلنے والی روایتی موٹر
سائیکل کے پہلے سے موجود ایکو سسٹم سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ
انھوں نے مقامی سطح پر الیکٹرک بیٹری سسٹم تیار کیا ہے۔
’جتنی چینی کمپنیاں آئیں انھوں نے یہی (جاپانی) ڈیزائن استعمال کیا کیونکہ
پاکستان میں اس کا ایکو سسٹم اور سپیئر پارٹس موجود تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کنٹرولر، بیٹری مینجمنٹ سسٹم (بی ایم ایس)، چارجر،
موٹر اور بیٹری پیک ڈیزائن کیے ہیں اور یہاں اسمبل کر رہے ہیں۔‘
ایسی موٹرسائیکلیں تیار کرنے والے ایک اور ادارے ایم ایس گروپ کے چیئرمین
چوہدری زاہد نے الیکٹرک موٹر سائیکل کی خاصیت کچھ یوں بتائی: ’اس میں گیئر،
کک، گیئر لیور، موبل آئل اور چین گراری سیٹ کچھ بھی نہیں ہے۔
عثمان شیخ کا کہنا تھا کہ ان کی تیار کردہ الیکٹرک بائیک کی رینج 70
کلومیٹر تک ہے اور اسے گھر یا دفتر میں پانچ گھنٹے میں چارج کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق اس موٹرسائیکل کی قیمت فی الحال 88 ہزار روپے رکھی گئی ہے تاہم
اسے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پٹرول بائیک بھی الیکٹرک بائیک بن سکتی ہے؟
عثمان شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی پیٹرول سے چلنے والی
موٹر سائیکل کو الیکٹرک موٹر سائیکل میں تبدیل کرنے کا خواہش مند ہے تو اب
یہ بھی ممکن ہے۔
|
|
’کسی نے اپنی بائیک میں (الیکٹرک) کٹ فِٹ کرانی ہے تو ہمارے پاس اس کا بھی
حل موجود ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے ادارے نے جو الیکٹرک کٹ تیار کی وہ پاکستانی بازار
میں موجود جاپانی ڈیزائن والی موٹر سائیکل کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی گئی
ہے اس لیے عام موٹرسائیکل میں بھی اس کی تنصیب ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے خواہشمند افراد قسطوں پر بھی اپنی موجودہ
پٹرول سے چلنے والی موٹرسائیکل کو الیکٹرک بائیک میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
’اگر آپ اپنی موٹرسائیکل میں الیکٹرک کٹ لگوانا چاہتے ہیں تو اس کی ماہانہ
قسط 5500 روپے ہو گی جو ایک سال تک چلے گی۔‘
الیکٹرک موٹر سائیکل کفایتی ہے؟
چوہدری زاہد کا کہنا ہے کہ الیکٹرک موٹر سائیکل کے استعمال سے نہ صرف پٹرول
اور دیگر اخراجات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہے۔
’گرین ٹیکنالوجی انفرادی بچت اور ماحول کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر
سکتی ہے۔ ایک تو اس میں دھواں نہیں ہے، آلودگی اس میں ہے ہی نہیں اور دوسرا
شور بھی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عام (پٹرول بائیک) اگر 50 کلومیٹر ایوریج دیتی ہے تو اس
کا ماہانہ خرچہ تقریباً چار ہزار آئے گا لیکن الیکٹرک بائیک کا خرچہ صرف
500 روپے آئے گا۔‘
|
|
پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی
تحریک انصاف کی حکومت نے رواں سال پاکستان کی الیکٹرک وہیکل پالیسی متعارف
کرانے کا اعلان کیا تھا جس پر وزارت ماحولیات اور وزارت صنعت و پیداوار کام
کر رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر ملک امین اسلم نے کہا تھا
کہ سنہ 2030 تک پاکستان میں 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی جبکہ وزیراعظم
کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کو
موجودہ آٹو پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بنانے میں دلچسپی لینے والے
اسمبلرز حکومت کی پالیسی کے منتظر ہیں اور اس سلسلے میں کسٹم ڈیوٹی اور
ٹیکسوں میں ابتدائی ریلیف چاہتے ہیں۔
چوہدری زاہد کے مطابق ’جب کسی چیز کو سہولت دینی ہو یا اسے آگے لے کر آنا
ہو تو پھر اس کے لیے حکومتی تعاون بھی ضروری ہوتا ہے۔‘
|