کسی شاعر نے لکھا تھا کہ دنیا میں کچھ ایسا کر کے چلو کہ
سدا یاد رہو۔ اب شاعر نے یہ تو نہیں بتایا کہ اچھا کریں یا برا کر کے چلیں،
بس کرنا کچھ ایسا ہے کہ زمانہ یاد رکھے۔ یہ الفاظ جسٹس منیر نے پلے باندھ
لئے اور کرتا چلا گیا۔ اس ایسےنے کارنامے سرانجام دئیےکہ آج تک زبان زدعام
ہے۔
عدلیہ کسی بھی ریاست کا ایک مقدس ادارہ مانا جاتا ہے۔ ملک کا اہم ترین ستون
ہونے کیساتھ ساتھ عوام میں یہ طبقہ محترم ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ عدلیہ ریاست کا دل ہے، اس ادارے کا ایک ایک فیصلہ
عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جسٹس منیر سے لیکر تمیزالدین تک اور
آصف کھوسہ سے لیکر آسیہ بی بی تک ایک ایک کردار ہمارے ذہنوں میں ایک کھلے
باب کی طرح عیاں ہیں۔
عدلیہ سے جڑے کچھ ایسے حقائق جسے آجکل کا پاکستانی تسلیم کرنے سے انکاری ہے،
اسلیئے آجکل کے عدالتوں کے فیصلوں اور ریمارکس پر حیرانگی ہوتی ہے۔
24 اکتوبر 1954 کو غلام محمد نے اسمبلی برخاست کی، جسکی وجہ صدارتی
اختیارات کو محدود کرنا تھی۔
احمدمحمود، ممتازدولتانہ،محمود قصوری اور مغربی پاکستان کے کچھ سیاستدانوں
نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔ سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین نے اس فیصلے کو
سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔
اب ہماری اخلاقی پستی کا یہ عالم ہےکہ عدالتی کارروائی میں پیش ہونے کےلئے
مولوی تمیزالدین کو برقعہ پہن کر گھر کے خفیہ رستے یا پیچھے کے دروازے سے
رکشے میں بیٹھ کے جانا پڑا۔ ہماری نمبرون ایجنسیاں انکے پیچھے ہاتھ دھو کے
پڑی تھی۔ اس کیس میں انکے وکیل منظرعالم کو سندھ ہائیکورٹ کے دروازے سے
گرفتارکیا گیا۔
یہ دور اتنا سخت تھا، کہ وکیل صحافی، ادیب تو حکومت کے لئے سب سے بڑا خطرہ
تصور کئےجاتےتھے۔ لیکن ہر دور اور حالات میں اپنی ناک، گردن اونچی رکھنے
والے شخصیات، اس قوم کے لاشے کو اپنے کندھوں پر اٹھائےلارہے ہیں۔ ایسا ہی
ایک کردار اس کیس میں روشن علیشاہ صاحب ہیں۔ یہ اس دور کے سندھ ہائیکورٹ کے
رجسٹرار تھے۔اصولوں کے پابند اور باکمال شخصیت کے مالک روشن علیشاہ سابق
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے والد تھے۔انہوں نے مولوی تمیزالدین کیس کو کازلسٹ
میں ڈالا۔ اس دور کے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جارج کونسٹن ٹائن نے چار رکنی
بنچ بٹھایا اور غلام محمد کے اقدام کو کلعدم قرار دے دیا۔
غلام محمد نے فیصلہ فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس وقت قاضی القضا جناب منیر
صاحب تھے۔ یہاں یاد دلانا ضروری ہے کہ منیر صاحب چیف بنے کیسے، جسٹس
عبدالرشید کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد چیف بننے کی باری ایس ایم اکرم کی تھی،
لیکن غلام محمد نے جسٹس منیر کو چیف بنایا۔ اب اس گناہ کا ثمر کھانے کے لئے
فیڈرل کورٹ میں شنوائ اپنے لاڈلے کے پاس لیکر آئے تھے۔ فرخ امین جو غلام
محمد کے سیکریٹری تھے غلام اورجسٹس منیر میں پل یا قاصد کاکردار ادا
کرتےتھے۔
یہاں بھی بینچ بنا وہ بھی پانچ رکنی لیکن فیصلہ وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ سندھ
ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے دیاگیااور جمہوریت تڑپتی رہ گئ۔
یہ کوئ ایک کیس نہیں جس میں منیر صاحب نے عدالت اور عدلیہ کے سر شرم سے
جھکائے۔
1958 میں ایف سی آر کے قانون کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا، جناب نے اس کالے
قانون کو خود قانونی تحفظ دیا۔ اس قانون نے کتنے گھر اجڑ دئیے، اس قانون کا
نشانہ بننے والوں سے پوچھیں۔ آج تک فاٹا کے کچھ علاقوں میں میڈیا کی رسائ
نہیں، یہی سننے میں آیا ہے کہ آجکل بھی وہی قانون چل رہا ہے۔
اسی جسٹس منیر نے ایوب کے مارشل لاء کو قبولیت بخشی، چار دفعہ توسیع لینے
والے ایوب نے ایک صدی سے ذیادہ عرصہ جمہوریت کا گلہ دبائے رکھا۔
جسٹس منیر کا کردار ذولفقار علی بھٹو کیس میں نہایت شرمناک ہے۔ اس کیس کی
اہمیت اور اثر کو مد رکھتے ہوئے انشاءاللہ اس پے آئندہ ایک تحریر لکھونگا۔
(جاری ہے)
(آپ میری رائے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں)
|