قائد اعظم اس ارض پاک کو ایک ایسی تجربہ گاہ بنانے کا عزم
رکھتے تھے جہاں اسلامی اصولوں پر عملی تجربات کیے جا سکیں ۔ آپ کی خواہش
تھی کہ پاکستان کا نام عالمی منڈیوں میں ساکھ کی علامت ہو۔
مہلت مل جاتی تو شاید وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے
ان کے بعد کھوٹے سکوں نے اور ان کی باقیات نے اس ملک کو ایک تجربہ گاہ تو
ضرور بنایا لیکن نیت میں فتور کے سبب ہمیں ایک ایسے مقام میں لا کھڑا کیا
کہ آج پاکستانی اور اس کے پاسپورٹ کو ہر جگہ مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے
اسلامی ممالک تک میں ہم بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں
مقام افسوس ہے کہ ہم" اور کاموں " میں ایسے کھوئے کہ اپنی راہیں کھوٹی کر
بیٹھے۔
ہمیں ایک قوم بننا تھا مگر ہجوم کے مقام پر ہم نے پڑاؤ ڈال دیا ۔
انگریزوں سے آزادی ملی تو کالے انگریزوں کے ہاتھوں دھر لیے گئے
جنھوں نے ہمیں مذہب زبان رنگ نسل اور برادری کے اختلافات میں الجھا کر بونا
بنا دیا اور خود طرم خان بن کر ہم پر حکمران بن بیٹھے ۔
ان کا ہر قدم اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور عوام کو انتشار کا شکار کرنے میں
بسر ہوتا رہا ۔مختلف طبقات کے باہمی تعصبات کو ہوا دے کر انگریزوں کے یہ
ذہنی غلام اپنا اقتدار انجوائے کرتے رہے ۔
ہم سے ہمارا مذہب وطن اور دھرتی کی محبت حتی کہ زبان تک چھین لی گئی۔
کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھنے دیا گیا کہ یہ منتشر ہجوم قوم کا روپ
دھار سکتیپ۔انسان کی دھرتی اس کا مذہب اور اس کی ماں بولی اسے بہت عزیز
ہوتے ہیں ۔دھرتی اس نسبت سے کہ یہ ماں کی طرح اپنا دامن پھیلائے اپنے آغوش
میں لینے کو ہر دم بیدار رہتی ہے ۔ماں کی نسبت سے دھرتی سے انسان کی عقیدت
میں ویسی ہی جھلک ہوتی ہے جو انسان اپنی ماں کے لیے محسوس کرتا ہے ۔انسان
کا مذہب سے تعلق بھی ماں باپ کی محبت کی طرح گہرا اور جذباتی سا ہوتا ہے ۔
سو انسان اسی نسبت سے والدین ایک وابستگی رکھتا ہے۔
انسان کی زبان جسے ماں بولی کہا جاتا ہے اس سے انسان کا عشق کوئی ڈھکی چھپی
بات تو نہیں ہے ۔ماں بولی انسان کا ابتدائی عشق ہے ۔ماں نے اسے گھٹی میں
گھول کر لوریاں
سنائی ہوتی ہیں ۔انسان تمام عمر اپنی گفتگو تحریر اور سوچ میں جس کی رفاقت
اور قرب کا سب سے بڑھ کر عادی ہوتا ہے وہ اس کی ماں بولی ہی تو ہوتی ہے ۔اس
کے دکھوں یادوں محبتوں نفرتوں خوشیوں تنہائیوں غرض ہر جذبے کی واحد ترجمان
۔انسان کے بچپن سے
موت تک کے ہر لمحے کی واحد ساتھی ۔کبھی نہ ساتھ چھوڑنے والی اور ہر دم اپنی
موجودگی کا احساس دلانے والی۔
زندہ قومیں اپنی ماں بولی اس لیے بولتی ہیں کہ اقوام عالم پر یہ واضح کر
سکیں کہ وہ گونگی نہیں ہیں ۔تباہ حال جاپان نے اپنی زبان اور اپنے تعلیمی
نظام کی آزادی چاہی تھی اور آج ترقی کی اوج پر ہے ۔دور کیوں جائیں اپنے
ہمسایہ دوست و ملک چین ہی کی مثال و ہمارے سامنے ہے جو ہم سے ایک سالعد
آزاد ہوا ۔اپنے قوت بازو اور زبان کے بل بوتے پر اس نے پورے دنیا کو اپنی
بے مثال ترقی سے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ عروج کا یہ سفر جاری و ساری ہے
۔
ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اس کا واحد مقصد ہی انتشار
تھا ۔ یہ ہمیں جوڑنے کی بجائے کمر ہمت توڑنے پر
کمر بستہ رہا ۔ہمارے رہنما رات کو خواب دیکھتے اور صبح دم پالیسیاں تبدیل
کر تے رہے ۔قومی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کے تمام تر وعدے اور
دعوے ہوا ہوتے رہے۔آج پھر ایک نئی حکومت نے خواب دکھایا تو مدتوں سے دبی
خواہش پھر سے جاگ اٹھی ہے
یکساں نصاب کی بات پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے ۔پرائمری تک اردو میں تعلیم
کا فیصلہ اگر بروئے عمل آئے تو اس سے بڑی خوشی کی بات دوسری نہ ہوگی ۔میٹرک
تک یکساں نصاب یکساں زبان اور یکساں ماحول میں وسیع البنیاد تعلیم کی
فراہمی ایک سنگ میل ہو گا جو نئی حکومت طے کرے گی ۔" ایک قوم ایک سوچ ایک
نصاب " کا خواب اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب اس قوم کا ہر فرد
پورے خلوص کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہو اور اس مشن میں اپنا معقول حصہ ڈالے ۔
|