گذشتہ ہفتے کوئی ایک ہزار کے قریب لوگوں نے، جو ابھی تک
جاپان میں پیجر استعمال کرتے تھے، پیجر سروس بند کیے جانے پر آنسو بہائے
ہوں گے۔
|
|
رُکیں، شاید آپ سوچیں کہ کیا پیجر ابھی تک چل رہے تھے؟
بھلے ہی آپ کو اب جاپان میں مزید پیجر نہ ملیں مگر یہ اب بھی دنیا میں دیگر
کئی مقامات پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور صرف پیجر ہی وہ 'قدیم' چیز نہیں
جو دنیا میں اب بھی استعمال ہو رہی ہے۔
1: پیجر
|
|
یہ کیسے کام کرتے ہیں؟
یہ چھوٹے ریڈیو ریسیورز کی طرح ہوتے ہیں جسے آپ اپنے ساتھ لے کر چل سکتے
ہیں۔ ہر صارف کا ایک ذاتی کوڈ ہوتا ہے جس کا استعمال لوگ آپ کو پیغام
بھیجنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ ہر پیغام پیجر کی سکرین پر چمکتا نظر آتا ہے۔
یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟
دنیا کے باقی بچ جانے والے پیجرز میں سے 10 فیصد سے زائد برطانیہ کی نیشنل
ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک لاکھ 30 ہزار ملازمین کے زیرِ استعمال ہیں۔
2017 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے 80 فیصد ہسپتالوں میں یہ اب
بھی استعمال میں ہیں۔
اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ ان میں ہمیشہ طاقتور سگنل آتا ہے۔ ہسپتالوں کے
چند کمروں کو ایکس ریز کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے جہاں پر فون کے سگنل بلاک
ہو جاتے ہیں۔ مگر پیجر کے ریڈیو سگنلز سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس کے
علاوہ یہ تیز بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایمرجنسی سروسز میں فائدہ مند ہوتے
ہیں۔
مگر پیجر اب شاید زیادہ عرصے تک باقی نہ رہیں۔ این ایچ ایس کا منصوبہ ہے کہ
2021 تک انھیں مکمل طور پر پیغام رسانی کے ایک جدید سسٹم سے تبدیل کر دیا
جائے گا۔
|
3: کیسٹ
|
|
یہ کیسے کام کرتی ہیں؟
ایک مخصوص عمر کے لوگوں کے لیے تو ہوسکتا ہے کہ کیسٹ ٹیپ کا صرف کام کرنا
ہی ایک خواب کی مانند ہو۔ قدیم زمانے کے اس فارمیٹ کو دیکھ کر مڑی ہوئی
ٹیپس اور ٹوٹے ہوئے کیسز کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
مگر جو لوگ 'نئے' ہیں، ان کے لیے بتاتے چلیں کہ یہ ایک چھوٹا، مستطیل
پلاسٹک کا ڈبہ ہوتا ہے جس کے اندر مقناطیسی پٹی کا ایک رول ہوتا ہے۔ کسی
جادو کی طرح آپ کو اس پٹی پر میوزک کی دنیا کے مشہور ناموں مثلاً میڈونا،
پرنس، رِک ایسٹلے وغیرہ کے گانے سنائی دیتے ہیں۔ آپ اس پر اپنی آواز بھی
ریکارڈ کر سکتے تھے۔
اس پلاسٹک کے ڈبے کو اپنے سونی واک مین یا اپنی گاڑی کے سٹیریو پلیئر میں
فکس کر کے بٹن دبائیں، اور یہ رہا آپ کا پسندیدہ میوزک۔ بس آواز کی زبردست
کوالٹی کی توقع نہ کیجیے گا۔
یہ اب تک کیوں چل رہی ہیں؟
یہ صرف چل ہی نہیں رہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مقبول بھی ہیں۔ یہ کسی چھوٹے سے
انقلاب کی طرح ہے۔
برطانیہ میں ان کی فروخت ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی بلند ترین
سطح پر ہیں۔ برٹش فونوگرافک انڈسٹری کے مطابق ان میں سے 35 ہزار اس سال کے
پہلے سات ماہ کے دوران فروخت ہوئی تھیں۔ یہ شاید بہت زیادہ تو محسوس نہ ہو
(کیونکہ یہ واقعی بہت زیادہ تو نہیں) لیکن یہ لگاتار ساتواں سال ہے جب ان
کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں بھی کہانی کچھ مختلف نہیں ہے جہاں نیلسن میوزک کے مطابق 2018
میں کیسٹس کی فروخت میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 23 فیصد کا اضافہ
ہوا۔
|
|
تو اس اضافے کی وجہ کیا ہے؟
مسٹر کیسٹ کے نام سے کیسٹ فروخت کرنے والی ایک آن لائن کمپنی کے مالک کین
بریسینڈن کہتے ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے کہ یہ یادِ ماضی کی وجہ سے ہے۔ یہ
میوزک سے لطف اندوز ہونے کے مرحلے کو دھیما کر دیتا ہے۔‘
’میری عمر کے لوگوں کو کیسٹ منتخب کرنا اور اس کے کور پر بینڈ کے نوٹس کو
دیکھنا پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا استعمال اور انھیں لانا لے جانا ونائل
ریکارڈز سے زیادہ آسان ہے۔‘
مگر صرف اپنی جوانی کے دور میں واپس جانے کے خواہشمند ہی یہ کیسٹس نہیں
خریدتے۔ بریسنڈن بتاتے ہیں کہ ’یہ جاری رجحان ہے اور اس نے شاید اس وقت زور
پکڑا جب ایمینیم اور دیگر بڑے آرٹسٹس نے انھیں ریلیز کرنا شروع کیا۔‘
کئی آرٹسٹس نے اپنے میوزک کو کیسٹس پر ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال
جن آرٹسٹس نے سب سے زیادہ کیسٹس فروخت کیں، ان میں بلی آئلش، کائلی مینوگ
اور لوئس کپالڈی شامل ہیں۔ چنانچہ ان ٹیپس میں اب بھی جان باقی ہے۔
|
5: فیکس مشینیں
|
|
یہ کیسے کام کرتے ہیں؟
اگر آپ اتنے نوجوان ہیں کہ آپ نے کبھی فیکس مشین نہیں استعمال کی، یا دیکھی
تک نہیں، تو آپ کو بتائیں کہ یہ ایک بڑا سا پرنٹر ہوتا ہے جس میں سے بھاپ
کے انجن جیسی آواز نکلتی ہے۔ کچھ پرانے ماڈلز کے ساتھ تو فون تک منسلک ہوتا
ہے۔ یہ کسی بھی طرح سٹائلش نہیں ہوتے۔
یہ کسی دستاویز کو سکین کر کے اسے ایک سگنل میں تبدیل کر دیتے ہیں جو کہ
چیخوں جیسی آواز کے ساتھ ٹیلیفون لائن کے ذریعے ایک اور فیکس مشین کی جانب
روانہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ مشین پھر اس سگنل سے دستاویز دوبارہ بناتی ہے اور
اسے پرنٹ کر دیتی ہے۔
یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟
اس لیے کیونکہ کاروبار، طبی شعبہ اور سرکاری محکمے اب تک اپنی ٹیکنالوجی اپ
ڈیٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی مثال لے لیں۔
اسے دنیا میں فیکس مشینوں کا سب سے بڑا خریدار تصور کیا جاتا ہے۔ یہ محکمہ
اس پرانی ٹیکنالوجی پر اس قدر منحصر ہے کہ گذشتہ سال حکومت نے اس محکمے پر
فیکس کی خریداری پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس کے بعد حکومت نے (ممکنہ طور پر ای میل کے ذریعے) این ایچ ایس کو ہدایت
کی کہ مارچ 2020 تک ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔
دنیا میں دیگر کئی جگہوں بشمول امریکہ، جرمنی، اسرائیل اور جاپان میں فیکس
مشینیں اب بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں فیکس بھیجے
جاتے ہیں۔
فیکس مشین کی تاریخ لکھنے والے پروفیسر جوناتھن کوپرسمتھ کہتے ہیں کہ
’کمپیوٹر کے استعمال میں روانی نہ رکھنے والے کئی عمر رسیدہ افراد کے لیے
فیکس کرنا آسان، جانا پہچانا اور سستا کام ہوسکتا ہے۔ چنانچہ بھلے آج فیکس
کے ذریعے زیادہ رابطے نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی یہ موجود رہیں گے۔‘
واقعتاً جاپان میں یہ مشین اب بھی کافی حد تک اپنی جگہ قائم رکھے ہوئے ہے
کیونکہ وہاں ہاتھ سے لکھنے اور کاغذی کاپی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
درحقیقت گذشتہ سال جاپان کے وزیرِ انٹرنیٹ سکیورٹی نے اعتراف کیا کہ انھوں
نے کبھی بھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا۔
یہ کام سیکھے بغیر نوکری حاصل کرنے کی عمدہ مثال ہے نا؟
|