تحریر: عبدالرزاق صالح، کراچی
27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران
خان کی کی گئی تقریر کے چرچے الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بڑے زور و
شور سے جاری ہیں۔ اسی تقریر کی ہی وجہ سے ملک کے اندر موجودہ حکومت کی ہر
لحاظ سے انتہائی ناقص کارکردگی کو چھپانے کا ریلیف بھی ضرور ملا ہے۔ اگر اس
تقریر پر غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ تقریر بظاہر تقریر کی حد تک
تو یقینا بڑی قابل تعریف ہے۔ جس پر بڑی بڑی مذہبی شخصیات اور ٹی وی اینکرز
نے اپنے اپنے تاثرات دیے ہیں۔ جن میں محض تقریر کی حد تک تو اس کو ضرور
سراہا ہے اور بعض نے تو اچھی امیدیں بھی وابستہ کر لی ہیں لیکن اگر جس منصب
اور فورم پر کھڑے ہوکر تقریر کی جارہی ہے کو دیکھا جائے تو کیا اس منصب اور
فورم کے لائق محض تقریر ہی کافی تھی یا اس سے پہلے گراؤنڈ پر کچھ عملی کام
کرنا بھی ضروری تھا؟
اب جیسے جیسے تقریر کا بخار اترتا جا رہاہے ویسے ویسے قول و فعل میں تضاد
بھی مزید بڑھتا جا رہا ہے اور تقریر میں موجود نقائص بھی منظر عام پر آ رہے
ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں چند امور کو خصوصی طور پر ذکر کیا۔
جن میں مسئلہ کشمیر، اسلام فوبیا، دہشت گردی کی نسبت اسلام کی طرف کرنا اور
توہین رسالت کے معاملے کا کا ذکر نمایاں تھا۔
اب اگر مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا جائے تو وزیراعظم صاحب نیاپنی تقریر میں
دنیا کو خوب متوجہ کیا لیکن گراؤنڈ پر عملی طور دیکھا جائے تو اس میں
وزیراعظم اور اس کی ٹیم مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔ جس کا اندازہ اس بات سے
بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی تقریر کی اہم پوائنٹ کشمیر کے مسئلے پر ہم نے
انسانی حقوق کے متعلق قرارداد پیش کرنے کے لیے درکار 16 ووٹوں میں سے صرف
12 ووٹ حاصل کر سکے جس کے نتیجے میں ہم کشمیریوں کیلیے ایک قرارداد بھی پیش
نہیں کرسکے۔ مزید ظلم یہ کہ اس دورے سے واپسی کے بعد ہمارے وزیر خارجہ کہتے
ہیں کہ ہمیں تو قرارداد پیش ہی نہیں کرنی تھی، کون کہتا ہے کہ ہمیں قرارداد
پیش کرنی تھی؟ اوئے اﷲ تیرا خیر کرے! جب قرارداد بھی پیش نہیں کرنی تھی تو
پھر خالی تقریر سے کیا حاصل ہوسکے گا؟ اور ہمارے وزیراعظم صاحب نے پہلے کہا
تھا کہ کشمیر بارڈر پر لڑنے کے لیے کوئی جہاد کرنے جائے گا تو یہ کشمیریوں
کے ساتھ ظلم ہوگا اور اب واپسی کے بعد کہتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا
رہنا جہاد ہے۔ تو ان متضاد باتوں سے قوم کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے اور
دوسری بات یہ کہ کیا اب صرف کھڑا ہی رہنا ہوگا یا عملی طور پر حکومت سفارتی
بنیادوں پر کچھ کر پائے گی؟ جس کا قوم کو شدت سے انتظار ہے۔
جہاں تک بات ہے اسلام فوبیا کی تو وزیراعظم صاحب نے کہا کہ نائن الیون کے
بعد دنیا میں اسلام فوبیا اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسلم عورتوں کو حجاب
پہننے نہیں دیا جا رہا ہے، جب کہ وزیراعظم صاحب کے اپنے ملک کے اندر اگر
شعبہ تعلیم کا کوئی بالا افسر طالبات کو حجاب پہننے کا پابند کرتا ہے تو 24
گھنٹوں میں حکومت ایکشن میں آ کر اس حکم نامے کو منسوخ کردیتی ہے کیا یہ
قول و فعل کا تضاد نہیں؟
اس کے بعد جہاں تک بات ہے دہشت گردی کی اسلام کے ساتھ جوڑنے کی اور خاص طور
پر نائن الیون کے بعد کی صورت حال کی، تو اس پر بھی وزیراعظم صاحب نے مغربی
قوتوں کو بالکل متنبہ کیا کہ نائن الیون سے پہلے جو تامل ٹائیگرز خود کش
حملے کرتے تھے وہ ہندوؤں تھے تو ہندوؤں ازم وغیرہ کو دہشت گردی کے ساتھ کسی
نے نہیں جوڑا۔ بالکل درست کہا۔ لیکن اس موقعے پر نائن الیون کے حوالے سے
اگر اس بات کی وضاحت طلب کی جاتی کہ جس دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر یہ حملہ کیا
گیا تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودی اس دن چھٹی پر
کیوں تھے؟ وزیراعظم صاحب نے جہاں ہندوؤں دہشت گردوں کی بات کی تو وہاں
یہودی دہشت گردوں کی بات بھی کھل کر کرتے تا کہ دنیا کو پتا لگ جاتا کہ ایک
مسلمان ملک کا رہنما کیسے بے خطر و خوف بولتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ یہ
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ یہودیوں ہی کی سازش تھی۔ جس سازش کے تحت ہی انہوں
نے دنیا کو اس بات کی طرف مائل کیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور اسلام کے
خلاف انہوں نے خوب ہرزہ سرائی کی۔ تو یہ یہودیت وہ چیز ہے جو اسلام اور
مسلمانوں کی کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمیں قرآن بتاتا ہے۔
اس کے بعد بات کی جائے توہین رسالت کی تو وزیراعظم صاحب نے کہا کہ مغرب
نہیں جانتی کہ وہ جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے شان میں گستاخی کرتے
ہیں تو مسلمانوں کے دلوں میں کتنا درد ہوتا ہے؟ کیوں کہ حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم مسلمانوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ یقینا یہ ہر کلمہ گو کے دل کی
آواز ہے۔ لیکن بات آتی ہے وہ ہی قول و فعل کے تضاد کی کہ وہاں تو وزیراعظم
صاحب مغربی قوتوں کو خوب جھنجھوڑ رہا ہے لیکن یہاں اپنے ملک اور اپنی ہی
حکومت میں توہین رسالت کیسز ایافتہ 3 مجرموں کو باعزت بری کر دیا جاتا
ہے۔ان تمام باتوں کے بعد وزیر اعظم پاکستان سے ہماری طرف سے دست بستہ گزارش
ہے کہ یہ ملک صرف تقریروں اور دعووں سے نہیں چلے گا اور آپ جس منصب پر کھڑے
ہیں اس منصب کے لائق صرف تقریریں نہیں بل کہ عملی طور پر کچھ کر دکھانے کی
ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ آپ اس وقت کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں کہ صرف اپنا موقف دیتے
رہیں بل کہ آپ ایک وزیراعظم ہیں اور اب آپ وہ کریں جو اس پوری قوم کی آواز
ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جو کہیں اور تقریر میں قوم کے سامنے جو بات رکھیں
یا کسی چیز کی دعویٰ کریں تو براہ کرم اس کو مکمل طور پر پورا کرنے کی بھی
پوری پوری کوشش کریں تا کہ آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں رہے۔ ورنہ
اس قوم کا وہ خواب جو تبدیلی لانے کی صورت میں دکھایا گیا تھا، کہیں مکمل
طور پر چکنا چور نہ ہوجائے۔
|