گرجا راولپنڈی کینٹ کی ایک نواحی
بستی ہے۔ ڈھوک سیداں سے گرجا گاؤں کی طرف جانے والی سڑک کے گردو نواح میں
تنگ وتاریک گلیوں، آلودگی اور کوڑا کرکٹ سے اٹے ہوئے خالی پلاٹ، ٹریفک کے
اژدھام، شور شرابے اور گندگی کی ڈھیروں میں گھری ہوئی آبادی، جہاں پاکستان
کے ہر علاقے سے محنت مزدوری کے لیے نقل مکانی کر کے آنے والے، مختلف نسلوں
اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ یہاں آباد ہیں۔اتفاق سے آزاد کشمیر کے
باشندوں کی ایک کثیر تعداد بھی یہاں مقیم ہے۔
اس بستی کے ایک سکول کی سالانہ تقریب انعامات میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ ایک
خوبصورت مجلس اور تلخ تجربہ تھا۔ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے جب پنڈال میں
داخل ہوا تو ایک محترمہ مخاطب تھیں کہ کوئی بچہ گندگی نہیں پھیلائے گا،
کوئی چھلکا ، کوئی کاغذ اور کوئی فالتو چیز گلی میں نہیں پھینکے گا۔ کوئی
جھوٹ نہیں بولے گا اور کوئی گالی نہیں دے گا۔ کہنے کو یہ ساری باتیں بہت
بھلی تھیں، دل کو لگنے والے اور سننے والی تھیں لیکن میں جوں، جوں نشستوں
تک جارہا تھا اس محترمہ کے الفاظ مسلسل میرے روح کو چھلنی کر رہے تھے۔ ایک
بوجھل دل کے ساتھ میں ان کی گفتگو سن رہا تھا کہ اچانک مجھے صف اول میں
بیٹھنے کا حکم ملا۔ سامنے سٹیج سجا ہوا تھا، بچے اور بچیاں مختلف خاکے،
مباحثے، ترانے اور مذاکرے پیش کر رہے تھے۔یہ جو کچھ بھی کہہ رہے یا پیش کر
رہے تھے وہ ان کے اپنے خیالات تو نہیں تھے لیکن اس کی ادائیگی ان معصوموں
کی زبان سے ہورہی تھی۔ یقیناً ان تخلیقات کے پیچھے سکول کی ٹیچرز میں
پوشیدہ صلاحیتوں کا اظہار تھا۔مڈل لیول کی طالبات نے تعلیمی انحطاط کا ذمہ
دار کون.... اساتذہ یا طلبہ کے موضوع پر مباحثے میں اظہار خیال کیا۔ ان
بچیوں نے جس پر اعتماد انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، میں وثوق سے
کہہ سکتا ہوں کہ یہ اعتماد، یہ انداز اور یہ گن گرج ہماری پارلیمنٹ میں بھی
ناپید ہے۔
یہ تقسیم انعامات کی تقریب کم اور موجودہ نظام، اپنے معاشرے اور اپنے
بزرگوں سے شکوے، شکایات، طنز اور ظالمانہ نظام سے کھلی بغاوت کا اظہار تھا۔
یہ ایک پسماندہ بستی کے مڈل نہیں بلکہ لوئر کلاس آبادی کے ہونہار، ذہین اور
بے باک بچوں کا اجتماع تھا۔ اس تقریب میں بچوں کی طرف سے پیش کیا گیا ہر
ایونٹ میرے زخموں پر نمک پاشی کرتا رہا اور میں اپنے طور پر اندر ہی اندر
ہر جرم کا اقرار کرتا رہا۔ بچوں کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ توپ کے گولوں
سے زیادہ دہشت ناک تھے، ان کا لب ولہجہ شکایت سے زیادہ بغاوت کا عکاس تھا۔
وہ کرپٹ نظام اور موجودہ معاشرے کے خلاف کھلی چارج شیٹ اور وائٹ پیپر
تھا۔ان کا ایک، ایک لفظ اور بیان کرنے کی ایک، ایک ادا جیسے ننگی تلوار تھی۔
وہ ظالمانہ نظام اور اس کے محافظوں سے اپیلوں کے بجائے وارننگز دے رہے تھے۔
وہ اپنی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے بچوں کے احساسات کی نمائندگی کر رہے تھے۔
ان معصوم بچوں نے گلی، محلے، ملک اور پوری امت مسلمہ کے حالات کا احاطہ کیا۔
اس دن کا سورج جب زوال پذیر تھا اور گرد آلودہ ہوائیں حشر بپا کر رہیں
تھیں، ایسے میں مجھے اظہار خیال کا حکم دیا گیا۔ میں تو ایک اقراری مجرم کی
طرح اپنی سیٹ پر مرجھا رہا تھا، میرے خیالات بکھرے ہوئے تھے، جذبات پر بچوں
کے الفاظ نے تیل چھڑک دیا تھا اور میری روح زخموں سے چھلنی تھی۔ میں اپنے
قلب و ذہن کو سہارا دیتے ہوئے لڑکھڑاتی ٹانگوں سے رینگتا ہوا ڈائس تک
پہنچا۔ اسی ڈائس پر جہاں چند لمحے قبل نئی نسل کے معصوم بچے میرے جرائم کی
فہرست پیش کر رہے تھے، جو ہمارے کندھوں پر قائم نظام کو چیلنج کر رہے
تھے،جو اپنی محرومیوں کا ذمہ دار مجھے اور میری نسل کے سارے لوگوں کو ٹھہرا
رہے تھے۔ بلا میں وہاں اعتراف جرم کے علاوہ کیا کہہ سکتا تھا۔میں نے حمد و
ثنا کے بعد اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہی تھا کہ بجلی چلی گئی۔جنریٹر کی
تیاری تک میں نے خود کو حوصلہ دیا اور بچوں کی چارج شیٹ کو درست قرار دیتے
ہوئے اپنی نسل کی ساری غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کیا۔ میں
نے ان معصوم بچوں کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ ہمارے سارے مسائل کی وجہ اللہ
تعالیٰ کے احکامات، نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور قرآن کے نظام عدل و انصاف سے
رو گردانی ، کرپٹ سیاست دان، عیار بیوروکریسی، اقتدار پرست عسکریت ہے۔ میں
اس بات سے بھی متفق تھا کہ ہمارے مسائل کا حل اللہ کی ہدایات، محمد عربی ﷺ
کی سنت اور قرآن کے دستور کی طرف مراجعت ہی ہمارے سارے مسائل اور مشکلات کا
حل ہے۔
میں نے اعتراف کیا کہ ہم نے ان معصوموں کو قرآن سے دور کر کے فرعونی ثقافت،
بے لگام کیبل چینلز اور بے رحم مقتدرہ کے سپرد کیا ہے۔ میں نے یہ بھی
اعتراف کیا کہ قابلیت اور صلاحیت کے بجائے رشوت، سفارش، اقربہ پروری اور
بوٹی کو فروغ دے کر ہم نے قوم کے ٹیلنٹ کو تباہ کیا اور بچوں میں تخلیقی
رجحانات کا قتل کیا ہے۔ میں نے اس جرم کا بھی اعتراف کیا کہ ہم آپ کوڑا دان
تک فراہم نہیں کرسکے۔ میں نے یہ بھی مانا کہ ہمارے گھروں میں جھوٹ، غیبت،
بہتان تراشی، سگریٹ نوشی، گندگی، گھریلو جھگڑوں، خاندانی رقابتوں اور ملک
کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جنگ سے آلودہ ماحول دے کر ہم نے معصوم بچوں کی
ستاروں پر کمند ڈالنے کی امنگوں کو خون کیا ہے۔
میں نے بچوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اچھے بزرگوں کی طرح آئندہ ان
گناہوں کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ میں نے اس مجلس میں موجود تمام مردوں اور
خواتین سے بھی یہ عہد لیا کہ اپنے گھروں اور اپنے اردگرد کو ان آلودگیوں سے
پاک رکھ کر ان شاہین بچوں کو زندگی کے سفر میں آسانیاں پیدا کریں اور ان
نونہالوں کے لیے ایک خوبصورت مستقبل تعمیر کرنے کے لیے وطن عزیز سے کرپٹ
سیاستدانوں، عیار بیوروکریسی ، موجودہ فرسودہ اور اللہ کے باغی نظام کے
خاتمے کے لیے اپنا تن، من دھن لگا دیں تاکہ ان معصوم بچوں کو ظلم،
ناانصافی، دہشت گردی، کرپشن، اقربہ پروری اور جہالت سے پاک معاشرہ منتقل کر
سکیں۔ تب ہی یہ بچے اپنے بزرگوں سے شکایات کرنے کے بجائے تا دیر ان کی
قربانیوں اور احسانات کو یاد رکھ سکیں گے۔ ایکسل ایجوکیشن سسٹم کے پرنسپل
برادر اعظم کیانی اور سکول کی ٹیچرزز مبارکباد کی مستحق ہیں کہ اس پسماندہ
بستی کے بچوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو انہوں نے جلا بخشی اور انہیں بلندیوں
پر سفر کرنے کا شعور دیا۔ |