اٹھارویں صدی کے ایسے شاعر، جن کاموازنہ میرومیرزاسے
کیاجاتاہے، گوشہ گمنامی میں ایسے غائب ہوگئے کہ اردوادب کے طالب علم انکے
نام سے ناواقف ہیں۔انعام اﷲ یقین 1727میں دہلی میں پیداہوئے ۔بچپن ہی میں
مرزامظہرجان جاناں کے شاگردہوئے اورانکی صحبت کااثرتھاکہ بارہ برس کی عمر
میں ایسی غزلیں لکھناشروع کیاکہ اس وقت کے اساتذہ انگشت بدنداں رہ
گئے۔تقریباً تمام تذکرہ نویس اس بات پرمتفق ہیں کہ یقین مرزا مظہرجان جاناں
کے شاگردتھے۔ یقین نے جگہ جگہ اپنی شاعری میں اسکااظہاربھی کیاہے بلکہ اکثر
حمد، نعت اورمنقبت میں اپنے استادکانام اورتعریف ضرورلکھی ہے۔ایک شعرملاحظہ
ہو۔
جوں نمازاپنے پہ صبح وشام لازم ہے یقین
حضرت استاد یعنی شاہ مظہرکی ثنا
اٹھارویں صدی کے اس زمانے میں ،جب میرتقی میر ، مرزاسودااورخواجہ میردردنے
ایک پورے دورکواپنے نا م کردیا، انعام اﷲ یقین جیسے شاعر بھی گزرے ہیں ، جن
کاکلام ان بڑے شاعروں کے کلام سے کسی طوربھی کم نہ تھابلکہ جب میرتقی
میرجیسے استادانعام اﷲ یقین کے حریف کے طورپرابھرکرسامنے آئے ہیں، تویہ اس
بات کاثبوت ہے کہ انعام اﷲ یقین بہت بڑے شاعرتھے۔انعام اﷲ خان یقین جس
خاندان میں پیداہوئے ، وہ اگرایک طرف زہدوتقویٰ اوربزرگی میں
مشہورتھاتودوسری طرف دولت، ثروت اوروقار میں بھی نامور اور ممتاز تھا۔
خاندانی سلسلہ چوتھی پشت میں حضرت مجددالف ثانی سے ملتاہے۔کریم الدین نے
طبقات الشعرا میں لکھاہے کہ یقین نیک رواوورخوش رو نوجوان تھے ، جوکہ 25سال
کی عمرمیں اپنے والد کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔انکی موت ایک ایسا معما ہے، جس
پرآج تک بحثیں جاری ہیں، مگرکوئی مستند حوالہ دستیاب نہ ہوسکا۔مختلف تذکروں
میں انکے قتل کے متعلق مختلف افواہیں درج ہیں ، جن کالب لباب یہ ہے کہ کسی
غیراخلاقی فعل کے مرتکب ہوگئے تھے ،جس کی وجہ سے خاندانی وقارمجروح ہونے
کاخدشہ تھا۔ لہذا اپنے والد نے قتل کرکے اسکی نعش دریامیں بہادی تھی۔
عبدالغفورنساخ نے سخن شعرا لکھاہے کہ یقین 25سال کی عمر میں تہمت زنا
پراپنے والد کے ہاتھوں بے گناہ شہید ہوئے۔ انعام اﷲ خان یقین انتہائی وجیہہ
اورشیرین زبان تھے۔بعض تذکروں میں انکی شادی کے متعلق بھی بیان ہواہے
اورساتھ انکے تین پسران کے نام بھی در ج ہیں جوکہ یہ ہیں۔ 1۔ مریدحسین
خان2۔ صمصام اﷲ خان3۔ مقبول نبی خان۔ یقین کو عین جوانی میں افیون کھانے
کاچسکاپڑاتھا،جس کاذکرانکے اکثراشعارمیں ملتاہے۔
جس سے میرے سانورے کی لگ رہی ہے جستجو
جس طرح ہوتاہے افیونی کو افیون کی تلاش
یقین کے بارے میں بعض تذکروں میں یہ بھی موجودہے کہ خواجہ میردردسے بھی
خاندانی سلسلہ ملتاہے،جس کاذکرانہوں نے ایک شعرمیں اس طرح کیاہے۔
خاندان درد مجھ سے کیوں نہ ہوروشن یقین
ہے مرا ہرداغ سینہ میں مصیبت کاچراغ
خدائے سخن میرتقی میر نہ جانے کس بات پریقین سے بیزارتھے ، کہ انکے بارے
میں بہت الٹی سیدھی باتیں کہہ دی ہیں ، جس کاتفصیلی ذکرنکات الشعرامیں
موجودہے۔انکے بقول یقین شاعری کامعمولی ساذوق بھی نہیں رکھتے تھے اورنہ
شعرکہہ سکتے تھے بلکہ انکے استاد مظہرجان جاناں انکے لئے اشعارلکھتے تھے ،
مگراصل واقعہ کچھ اورہے کہ میر تقی میر یقین کی ملاقات کوگئے ۔ میر نے پہلے
یقین کے دادا سے ملاقات کی ،جس نے میرکی بہت قدردانی کی اورشعروشاعری کی
محفل بھی ہوئی ۔اسکے بعد میریقین کی محفل میں گئے۔انکے بڑے گھرمیں انکے
ساتھ ملے۔یقین خوب رونوجوان تھے اوراپنے فن پر خوب نازاں بھی تھے۔اس وجہ سے
انہوں نے میرکی وہ قدرنہ کی، جس کی امیدتھی کیونکہ یقین کو خودپریہ دعویٰ
تھاکہ
یقین تائیدحق سے شعرکے میدان کارستم ہے مقابل آج اسکے کون آسکتاہے کیاقدرت
جب یقین نے میرکی قدردانی نہ کی اورنہ ہی انکے شعرکی تعریف کی تومیربگڑگئے
کیونکہ انکی بددماغی بھی مشہورتھی۔لہذا نہوں نے یقین کو کم فہم ٹہرایا۔اس
بابت نکات الشعرا میں میریوں رقم طرازہیں۔ـ’’بعدازملاقات این قدرمعلوم شدکہ
ذایقہ شعرفہمی مطلق ندارد‘‘۔میریقین کو نالائق اورکم فہم ٹہرانے کے لئے کسی
بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے لیکن قدرت اﷲ شوق اورعبدالحی نے
اسکی تردیدکی ہے ۔اس سلسلے میں عبدالحی نے لکھاہے ۔
’’میرصاحب کی زبردستی دیکھو ۔یقین کادیوان انکی سخن گوئی کی زندہ شہادت
موجودہے ۔ایسے سخن گو کی سخن فہمی سے انکارکرنا میرصاحب کی زبان سے
اچھانہیں لگتا‘‘۔ اس جملہ بحث سے یہ بات واضح ہے کہ یقین بہت بڑے شاعرتھے
اورانکے ہاں شاعری کے جملہ لوازمات بدرجہ اتم موجودتھے ۔ بقول گارسادتاسی
خود میر نے ایک جگہ یقین کی تعریف میں لکھاہے ۔’’ یقین شاعرریختہ صاحب
دیوان ازبس کہ اشتہاردارد،محتاج تعریف نیست ‘‘ ۔بہت سے تذکرہ نگاراس بات
پرمتفق ہیں کہ پرانے زمانے کے ریختہ گوشعرا میں یقین ہی پہلاشخص ہے
،جوہمیشہ اپنے خیالات کو نہایت پاکیزگی اورصفائی سے باندھتے تھے اوربعدمیں
لوگوں نے انکاتتبع کیا۔مولوی عبدالحئی نے گل رعنامیں لکھاہے کہ اگریقین
جیتے رہتے تومیریامیرزامیں کسی کاچراغ انکے سامنے نہیں جل سکتاتھا۔یقین کی
شہرت انکی زندگی میں اتنی ہوئی تھی کہ لوگ میرومیرزا کو خاطر میں نہیں لاتے
تھے۔اس زمانے کے دیگر شاعروں کے دیوان ملاحظہ کرنے سے واضح ہوتاہے کہ بڑے
بڑے شاعرانکی پیروی کرتے تھے ، یہاں تک کہ میر ،سودا،درد اورتاباں نے بہت
غزلیں انکی طرزپرکہی ہیں۔
اردوادب کے اتنے بڑے شاعرآج اس قدرگوشہ کمنامی میں پڑے ہوئے ہیں کہ میں نے
بہت سارے دوستوں اوراساتذہ سے اس بارے میں استفسارکیاتوکسی نے ایساجواب
نہیں دیا،جس سے میرے ذوق کی تشفی ہوجاتی۔لہذا میں نے خود انعام اﷲ خان یقین
کی حیات اور فن پر تحقیق جاری رکھی اوراس بابت میں نے بہت کچھ پڑھا، جس
کالب لباب قارئین کے ذوق کی تسکین کے لئے پیش کیا۔
نمونہ کلام:
نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پر کیاگزرا
ہماری توبہ کرلینے سے پیمانے پہ کیاگزرا
برہمن سرکو اپنے پیٹتاتھادیرکے آگے
خداجانے تیری صورت سے بت خانے پہ کیاگزرا
ایک اورشعر بوئے مئے آتی ہے منہ سے جوں کلی سے بوئے گل
کیوں یقین سے جان کرتے ہومکرجانے کی دھوم |