عزیزم بلال ساہی ایماندار فرض شناس پولیس افسر اور میرے
اچھے دوست ہیں ، اکثر جب میں اپنے کالمز میں محکمہ پولیس پہ تنقید کرتا ہوں
تو انہیں اچھا نہیں لگتا انہیں شکوہ ہے کہ ہم پولیس کا صرف ایک ہی رخ
دکھاتے ہیں ، ہم( میڈیاوالے) منفی چیزوں کو بہت تشہیر دیتے ہیں اور مثبت
پہلووں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔
میں نے غور کیا تو مجھے ان کی بات سے متفق ہونا پڑا ، میں نے ان سے وعدہ
کیا تھا کہ میں اپنے گذشتہ کالمز جن میں پولیس پہ تنقید تھی کی تلافی کرنے
کے لئے ایک کالم مزید لکھوں گا جس میں اصل خرابی کی وجہ اور اس کا حل تجویز
کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اعوام کو یقینا" اس محکمے سے بہت ساری شکایات ہیں
اور اکثر ہیں بھی جائز ، لیکن انصاف سے دیکھیں تو سب سے ذیادہ ڈیوٹی اور
جانی قربانیاں دینے والا یہ محکمہ وسائل کی سخت قلت کا شکار ہے انہیں لوگوں
کی نفرت اور گالیوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے اس کے ساتھ جونئیر اور
اعلی افسران پر سیاسی دباو اس قدر ہوتا ہے کہ بیچارے اچھا کام کرنا چاہیں
بھی تو بسا اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا ۔ آپ خود اندازہ کریں یہاں نہ چھٹیوں
کا کوئی شیڈول ہے بلکہ تعطیلات کے دنوں میں جب سارے لوگ فرصت کا مزہ لے رہے
ہوتے ہیں یہ بیچارے پھر بھی کسی ناکے یا گشت میں سردی اور گرمی کے ساتھ ہر
قسم کے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
پولیس سسٹم کی خرابی میں محکمہ میں طبقاتی تقسیم کا بہت بڑا ہاتھ ہے، پولیس
فورس میں نفری کی کمی، ڈیوٹی ٹاٸمنگ کا شیڈول نہ ہونا، سیاسی اثرورسوخ اوپر
سے میڈیا کا منفی کرداروں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا اور مثبت پہلوٶں کو
منظر عام پر نہ لانا ، تفتیش میں افسران بالا کی بلاوجہ دخل اندازی
ہے،پولیس کو میڈیکل، ایجوکیشن اور رہائشی انتظامات جیسی بنیادی سہولیات کا
فقدان ہے ،غرض اس طرح کی اور بہت سارے مسائل ہیں جن کے ساتھ یہ محکمہ بس
معجزانہ طور پہ چل رہا ہے ۔
اگر تھانہ کلچر اور پولیس کوٹھیک کرنا ہے تو پہلے پولیس میں اصلاحات لانا
پڑیں گی، پولیس کے ہر رینک کے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر بنیادی
ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوۓ اقدامات کرنے چاہیں ۔
ہر تھانے کو تفتیش ، بلڈنگ اور گاڑیوں کی مینٹینس اور گاڑیوں کے تیل کی مد
میں اخراجات ملنے چاہیں ، اس کے علاوہ معقول تنخواہ بھی ہونی چاہیے ۔
اور پھر بھی اگر کوئی رشوت لیتا یا ناجائز کام کرتا ہوا پایا جائے تو ایسے
خائن کو عبرت کا نشان بنانا چاہئے تاکہ دوسروں کے لئے مثال ہو ۔
|