منگل کی شب برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ
مڈلٹن جب ایک رکشے میں بیٹھ کر اسلام آباد میں واقع پاکستان نیشنل مانومنٹ
پہنچے تو ان سے ملنے کے متمنی افراد میں چند 'طاقتور' وفاقی وزرا اور وزیر
اعظم عمران خان کے قریبی مشیران بھی شامل تھے۔
|
|
لیکن اس موقع پر کیے گئے 'سخت سکیورٹی انتظامات' کا کیا کیجیے کہ جس کی
بدولت نصف درجن کے قریب وزرا اور مشیران شاہی جوڑے سے ملنے کی اپنی خواہش
دل میں ہی لیے اس تقریب سے رخصت ہوئے۔
ان وزرا اور مشیران میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، وفاقی وزیر داخلہ اعجاز
شاہ، وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد حسین، وزیر اعظم کے مشیر
برائے سیاسی امور نعیم الحق اور مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان شامل
ہیں۔
ان نصف درجن وزرا اور مشیران میں سے دو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق
کی کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھیں شاہی جوڑے کے قریب جانے کی اجازت
نہیں دی گئی۔
وزیر اعظم کے ایک مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ برطانوی
سکیورٹی حکام کی طرف سے اس موقع پر کیے گئے انتظامات 'بہت احمقانہ' تھے۔ ان
کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اراکین کو شاہی جوڑے سے ملنے کی اجازت نہ دینا 'توہین
آمیز' تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے اس حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا
ہے تو ان کا کہنا تھا 'وزارت خارجہ اس حوالے سے برطانوی حکام سے شکایت کرے
گی'۔
|
|
دوسری جانب ایک وفاقی وزیر نے بھی تصدیق کی کہ وزرا کو سکیورٹی وجوہات کی
بنا پر شاہی جوڑے سے ملنے نہیں دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ شاہی جوڑے سمیت تقریب میں موجود تمام افراد برطانوی ہائی
کمیشن کے مہمان تھے اور دعوت نامے بھی ہائی کمیشن ہی کی جانب سے جاری کیے
گئے تھے۔
'جو دعوت نامہ ملا تھا اس پر پروگرام کے حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات درج
نہیں تھیں۔'
انھوں نے بتایا کہ جب دو وزرا بشمول غلام سرور خان کو ہائی کمیشن کے عملے
کی جانب سے کہا گیا کہ وہ استقبالیے تک رکشے میں آئیں تو انھوں نے رکشے میں
بیٹھنے سے انکار کر دیا اور واپس چلے گئے۔
جبکہ چند دیگر وزرا نے بھی رکشے میں بیٹھنے سے انکار کیا اور اپنی اپنی
گاڑیوں میں مانومنٹ پہنچے۔
'جب ہم مانومنٹ پہنچے تو پتا چلا کہ علیحدہ علیحدہ انتظامات کیے گئے تھے۔
چند وزرا کو جب علیحدہ انتظامات کا پتا چلا تو وہ تقریب چھوڑ کر واپس آ گئے۔'
صحافی حامد میر بھی اس تقریب میں موجود تھے انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں
لکھا کہ 'ہم میں سے زیادہ تر لوگ رکشہ کے ذریعے مانومنٹ پہنچے ماسوائے چند
سینیئر بیوروکریٹس اور وزرا کے جو اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔۔۔'
|
|
فردوس عاشق اعوان کے ساتھ کیا ہوا؟
وفاقی وزیر کے مطابق دیگر وزرا کے برعکس وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے
اطلاعات تقریب کے اس حصے میں پہچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں شاہی جوڑا
موجود تھا۔
'اس موقع پر برٹش گارڈز نے انھیں اس مخصوص جگہ سے باہر نکال دیا جہاں شاہی
جوڑا موجود تھا۔'
وفاقی وزیر کے مطابق اس کے بعد فردوس عاشق تقریب سے واپس روانہ ہو گئیں۔
یاد رہے کہ شاہی جوڑے کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے برٹش رائل گارڈ بھی
ان کے ہمراہ پاکستان آئے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس تقریب کے تمام تر انتظامات بدنظمی کا شکار
تھے جس میں مدعو کیے گئے مہمانوں کو ایک الگ جگہ کھڑے ہونے کا کہا گیا
کیونکہ بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔
فردوس عاشق اعوان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم مصروفیات
کے باعث وہ بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔
میڈیا بھی ناراض
نجی ٹی وی سما سے وابستہ صحافی خالد عظیم بھی اس تقریب میں شریک تھے۔ انھوں
نے بتایا کہ میڈیا نمائندگان کو تقریب کے شرکا کے ساتھ ملنے کی اجازت ہی
نہیں تھی۔
'میڈیا کو صرف اس جگہ تک رکھا گیا جہاں تقریب میں مدعو افراد نے استقبالیے
تک آنا تھا۔ بلکہ اس کو استقبالیہ بھی نہیں کہہ سکتے۔'
انھوں نے بتایا کہ اس جگہ تک بھی پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے علاوہ صرف دو
نجی چینلوں کو کیمرے رکھنے کی اجازت دی گئی، باقی میڈیا کو اس جگہ کھڑا کیا
گیا جہاں سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے مہمان تشریف لا رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ مرکزی تقریب تک جانے کی اجازت نہیں تھی اس
لیے وہ جلد ہی تقریب سے واپس آ گئے تھے۔
|