چین میں فضائی آلودگی کی غیرمعمولی سطح وہاں قبل از وقت
اموات اور سانس کی بیماریوں کا باعث ہے مگر ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے
کہ حمل ضائع ہو جانا بھی اس سے جڑا ہے۔
|
|
ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک بالغ فرد قریب بیس ہزار مرتبہ
سانس لیتا ہے اور اگر آپ بیجنگ جیسے فضائی آلودگی سے شدید متاثرہ شہر میں
رہ رہے ہیں، تو آپ خطرناک کیمیائی ذروں کی ایک غیرمعمولی مقدار اپنے اندر
انڈیل رہے ہیں۔
بریتھ لائف نامی تنظیم کے مطابق چینی دارالحکومت کی فضا میں انسانی زندگی
کو خطرات سے دوچار کرنے والے کیمیائی مادوں کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی
مقررہ سطح سے سات اعشاریہ دو فیصد زائد ہے۔ اس تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا
ہے کہ حاملہ خواتین کا ایسی فضا میں سانس لینا حمل ضائع ہو جانے کے خطرات
سے جڑا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر سسٹینیبیلیٹی میں شائع ہونے والی اس تحقیقاتی
رپورٹ میں آلودہ فضا میں سانس لینے کو 'حمل کا خاموش قاتل‘ قرار دیا گیا ہے۔
سائنسی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ فضائی آلودگی قبل از وقت پیدائش، پیدائش کے
وقت بچے کا کم وزن اور سانس کی بیماریوں کے علاوہ حاملہ خواتین کے لیے کئی
طرح کے مسائل کا باعث ہے، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ فضائی آلودگی کے حمل پر
اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی حمل ضائع ہونے کے اعتبار سے
خاموشی سے اپنا کردار ادا کرتی ہے، جس میں بچہ ماں کے رحم ہی میں یا تو مر
سکتا ہے یا اس کی نمو رک جاتی ہے۔ اس سلسلے میں تاہم مزید تحقیق کی جا رہی
ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق چین کی متعدد جامعات سے وابستہ ماہرین نے بیجنگ شہر میں
سن 2007 سے 2017 کے درمیان ڈھائی لاکھ سے زائد حاملہ خواتین کے ریکارڈ کا
جائزہ لیا، جس میں دیکھا گیا کہ دورانِ حمل کس خاتون کا فضائی آلودگی سے
کتنا سامنا ہوا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سترہ ہزار چار سو ستانوے کیسز
میں فضائی آلودگی کا زیادہ سامنا کرنے والی خواتین کے حمل ضائع ہوئے۔ یہ
تعداد قریب چھ اعشاریہ آٹھ فیصد بنتی ہے۔
|
|
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ خواتین جو کسان ہیں یا مزدوری کے دیگر کاموں
سے جڑی ہیں اور ان کی عمریں 39 برس سے زائد ہیں، ان میں فضائی آلودگی کی
وجہ سے حمل ضائع ہونے کے امکانات زیادہ دیکھے گئے ہیں۔
|
Partner Content: DW |