آج دل چاہتا ہے کہ ماں کے بارے میں لکھوں۔ کون ہے جو اس
شیریں ترین لفظ سے نا آشنا ہے؟ اگر پوچھا جائے کہ "ماں" کیا ہے تو ہر شخص
مختلف تعریف کرے گا۔ اور پُر لطف بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی
تعریف، کوئی بھی وضاحت غلط نہیں ہو گی۔ ماں کے بارے میں جو کچھ کہا جائے کم
ہے، جو کچھ لکھا جائے کم ہے۔
اس انمول رشتے کی تعریف کے لیے مناسب الفاظ کا چناؤممکن نہیں لیکن میرے
خیال میں ماں کی عظمت بیان کرنے کے لیے یہی جملہ کافی ہے کہ "خدا اپنے
بندوں سے ستّر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔" ذرا غور کریں کہ خدا اپنی
محبت کو بیان کرنے کے لیے جس ہستی کی مثال دی ہے وہ کتنی عظمت کی حامل
ہوگی۔
ماں محبت کا خالص ترین روپ ہے بلکہ اگر کہا جاۓ کہ ماں مجسم محبت ہے تو بے
جا نہ ہو گا۔جب تک ماں کا سایا ہمارے سر پر ہوتا ہے ہمیں احساس نہیں ہوتا
کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں مگر ماں کے گزر جانے کے بعدپتہ چلتا ہے کہ زندگی
میں کتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پُر ہونا ناممکن ہے اور ہم بالکل
تہی داماں ہو چکے۔
جس طرح ماں کی محبت کی وضاحت کرنا ناممکن ہے اُسی طرح ماں کے نہ ہونے کے
احساس کو بیان کرنا بھی کافی مشکل کام ہے۔لیکن شاید میرے چند جملے اُن
احساسات کو بیان کر سکیں۔ ماں کے گزر جانے کا احساس ایسا ہے جیسے سر سے
سائبان چھن جاۓ۔ ماں کے ہونے سے آپ کے سر پر ایک سائبان تھا جو آپ کو زمانے
کے سردوگرم اور تھپیڑوں سے بچاۓ ہوۓ تھا۔مگر اب وہ سائبان ہٹ گیا ہے اور آپ
ٹھنڈی میٹھی چھاؤں سے یکدم کڑی دھوپ میں آکھڑے ہوۓ ہیں۔زمانے کی کڑی دھوپ
اور آپ کے بیچ اب کوئی رکاوٹ نہیں۔
زمانے کے برساۓ ہوۓ وہ پتھر جو آپ کے سر پر تنے سائبان کی وجہ سے آپ تک
نہیں پہنچ پاتے تھے اب آپ کے برہنہ سر پر برس رہے ہیں۔ماں ایک ایسا سائبان
تھی جو آپ پر برستے پتھروں کو اپنی ذات پر سہتی تھی مگر کوئی بھی پتھر آپ
تک نہیں آنے دیتی تھی۔ اُس کے جانے کے بعد آپ زمانے کی سنگ باری کی زد میں
آگئے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں نہ "ماواں ٹھنڈیاں چھاواں" بالکل ٹھیک کہتے ہیں اور اس جملے
کی حقیقت مجھ پر اپنی ماں سے بچھڑنے کے بعد واضح ہوئی جب وہ چھاؤں مجھ سے
چھن گئی۔ہر رشتہ پرایا ہو گیا ، زندگی کی رنگینیاں روٹھ سی گئی ہوں جیسے۔دل
پر ایک ہی موسم ٹھہر گیا، اُداسی کا۔ آنکھوں میں ایک ہی موسم جاگزین ہے،
آنسوؤں کا۔
آج جب ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں جن کی مائیں حیات ہیں پر وہ اُن کی قدر
نہیں کرتے تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ اُن کے پاس جا کر دریافت کروں کہ
کیا جانتے نہیں کہ کس عظیم نعمت سے نوازے گئے ہو؟جب یہ نعمت نہیں رہے گی تو
سوائے پچھتاوے کہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ارے ماں کی اہمیت اُن سے پوچھو جو اس
عظیم نعمت سے محروم ہو گئے۔
ماں کے وجود کی بدولت ہی گھرگھر کہلانے کے لائق بنتا ہے۔ کبھی آپ نے اُن
گھر نُما کھنڈرات کو دیکھا ہےجو ماں کے وجود سے خالی ہوں؟ کیسی ویرانی اور
وحشت ٹپکتی ہے اُس گھر کے درودیوار سمیت ہر چیز سے۔کسی نے کہا ہے اور کیا
خوب کہا ہے کہ وہ گھر جس میں ماں نہ ہو، گھر نہیں قبرستان ہے۔کہیں پڑھا ہوا
ایک شعر ذہن کے دریچے پر دستک دے رہا ہے شاعر کا نام تو یاد نہیں البتہ شعر
آپ کی نذر کرتی ہوں
زندگی کے سفر میں،گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
خدا آپ سب کی ماؤں کو سلامت رکھے۔ آمین۔
|