میرٹ،میرٹ اور میرٹ، بظاہر تو یہ لفظ ہر پاکستانی
حکمران اور باختیار شخص کے زبان پر ہوتا ہے اور یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ
ہماری حکومت میں ہر کام میرٹ پر کیا جائے گا کیونکہ وہی قومیں ترقی کرتی
ہیں جہاں با صلاحیت افراد کومیرٹ پر آگے لے کر جائیں، مگر یہاں تو بقولِ
شاعر ،، ’’ سنتا نہیں ہے ،کوئی یہاں مفلسوں کی بات ۔۔۔ہر شخص میرے شہر میں
مصروفِ زر لگے۔‘‘
سکیل ایک سے لے کر سکیل سولہ تک کی بھرتیوں میں جو گھپلے ہو تے ہیں ،اس کا
تو ذکر ہی کیا ، اس کا حال تو سبھی جانتے ہیں کہ کس طرح سرکاری ملا زمتوں
میں انصاف کے گردن پر چھری پھیر دی جاتی ہے مگر کسی صوبہ میں صوبائی پبلک
سروس کمیشن میں بھی اثر رسوخ سرایت کر جائے اور میرٹ کا خون کیا جائے تو
پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، پھر اس صوبے کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ اس اہم محکمہ
کے متعلق مجھے دکھی دل کے ساتھ یہ کالم خیبر پختونخوا کے ایک معروف معلم،
شاعر،ادیب، کالم نگار اور ڈرامہ نگار جناب ’’ ڈاکٹرپروفیسرہمایوں ہما تمغہ
امتیاز ‘‘کی تحریر پڑھ کر لکھنا پڑ رہا ہے۔آئیے ! دیکھیں ، وہ کیا لکھتے
ہیں ۔
’’ آج مجبور ہو کرمیں ایک ایسے حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں، جو میری
زندگی کی سب سے بڑی تلخ حقیقت ہے ،میں نے اسے حال ہی میں اپنی شائع شدہ
کتاب ’’ دا زوندون دغہ قصہ دا ‘‘ میں بھی سپردِ قلم کیا ہے۔میں نے اپنے
عملی زندگی کا آغاز 1962میں ایک کلرک کی حیثیت سے کیا مگر علم کی تشنگی نے
حصولِ علم کو میرے لئے آسان بنا دیا ، مزید تعلیم حاصل کی ،مجھے پیشہ
پیغمبری اختیار کرنے یعنی معلم بننے کا شوق تھا سو 1969میں محکمہ تعلیم میں
قدم رکھا اور بفضلِ خدا 1904میں بحیثیتِ پروفیسر سکیل 20میں ریٹائر ہوا۔اﷲ
کے فضل و کرم سے میں نے اپنے تمام بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی بوجہ ازیں میرے تمام بچے آج نہایت اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ میں نے
کبھی بھی ان کی ملازمت کے لئے سفارش یا اوچھے ہتھگنڈوں کا سہارا نہیں لیا
لیکن حال ہی میں ایک واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا،اتنا مایوس کیا ،جسے
مناسب لفظوں میں بیان کرنا میرے لئے ممکن ہی نہیں ۔میرا بڑا بیٹا عظمت ہما
اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔پچھلے سال انہوں نے خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کے
مشتہر کردہ آسامی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لئے درخواست دی، تحریری امتحان میں
221نمبر حاصل کئے لہذاانہیں انٹرویو کے لئے بلایا گیا ،ان کا نام میرٹ لسٹ
میں تیسرے نمبر پر تھا کیونکہ اس نے اکیڈمیک کوالیفیکشن میں بھی 38نمبر لئے
تھے،انٹرویو کے کل نمبر 25تھے مگر انصافی حکومت کا انصاف ملاحظہ کیجئے کہ
انہیں انٹرویو میں صرف 7 نمبر دئیے گئے، بصورتِ دیگر وہ منتخب ہو جاتا مگر
افسوس صد افسوس کہ میرے بیٹے کو مسترد کر دیا گیا اور اس کی جگہ ذاتی پسند
کے کسی اور امیدوار کو منتخب کر لیا گیا ‘‘
بِلا شک و شبہ ڈاکٹر ہمایوں ہما صاحب کی بیان کردہ دکھ بھری داستان میں جو
درد پوشیدہ ہے وہ درد وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے ساری عمر اپنے
لئے بھی اور قوم کے دوسرے افراد کے لئے بھی ہمیشہ میرٹ کو مدِ نظر رکھا ہو
۔جب کسی ملک میں میرٹ پامال ہو رہا ہو، جہاں سفارش کے بَل بوتے پر اہم
عہدوں پر تعیناتی ہو رہی ہو ،اس ملک میں ادارے تباہ نہیں ہو ں گے تو اور
کیا ہو گا ؟ آج اگر وطنِ عزیز میں تمام اہم ادارے تباہ ہو چکے ہیں یا تباہی
کے کنارے کھڑے ہیں تو اس کی بڑی وجہ میرٹ کی پا مالی ہے۔نا اہل افراد جب
اہم عہدوں پر براجماں ہو نگے تو ان کے ماتحت بھی کام چوری اور غفلت کے
مرتکب ہوں گے،یوں سارے ملک کی حالت ایسی ہی ہو گی جیسے آج کل وطنِ عزیزکی
ہے،جس کا شمار دنیا کی پسماندہ ترین ملکوں میں ہو تا ہے۔ لہذا میری موجودہ
حکومت سے گزارش ہے کہ خدا را سفارش یا رشوت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر
میرٹ کا بول بالا کیجئے تاکہ ادارے مضبوط ہوں ، ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک
خود بخود مضبوط اور ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا ۔۔۔۔ |