پاکستان: خیبر رائفلز میس میں ڈیانا کا کمرہ، اور کیا کچھ دلچسپ ہے یہاں؟

برطانوی شاہی جوڑے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ کو طورخم بارڈر کے قریب خیبر پاس پر واقع خیبر رائفلز آفیسر میس جانا تھا لیکن موسم کی خرابی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس سے قبل شہزادہ ولیم کی والدہ لیڈی ڈیانا بھی اس میس کا دورہ کر چکی ہیں۔
 

image


خیبر پاس کی شہرت کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے اہم خیبر رائفلز میس ہے۔ یہ میس فوج کے دیگر میس ہالز کی طرح ہی ہوتا اگر یہاں دنیا کی اہم ترین شخصیات قیام نہ کرتیں۔
 

image


خیبر رائفلز میس میں داخل ہوں تو یہی تاثر ملتا ہے کہ انگریز اب بھی یہاں موجود ہیں۔ نہایت سلیقے سے تراشے لان، دیواروں پر لگے فوجی نشان اور تصاویر اور ایک مکمل ڈسپلن کی فضا۔

لیکن یقیناً یہ حقیقت نہیں۔ پیرا ملٹری فورس ایف سی سے منسلک خیبر رائفلز اب بڑی حد تک پاکستانی فوج کا حصہ ہے۔
 

image


لیکن اس میس کی ایک اور بات جو اسے فوج کے دیگر میسز سے منفرد بناتی ہے، وہ ہے ’ڈیانا روم‘۔
 

image


شہزادی ڈیانا نے سنہ 1991 میں یہاں کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے رات اسی میس میں قیام کیا۔ ان کا کمرہ محفوظ کر لیا گیا اور اس کے بعد یہ کسی کے زیر استعمال نہیں رہا۔
 

image


یہاں آنے کے چند روز بعد شہزادی ڈیانا نے اپنی ایک دستخط شدہ تصویر بھیجی جس کی ایک کاپی کمرے میں آویزاں ہے جبکہ اصل تصویر مرکزی گیلری میں لگائی گئی ہے۔
 

image


شہزادی ڈیانا نے میس کو خصوصی طور پر ایک ٹیلی فون کا تحفہ دیا تھا۔ گولڈن رنگ کا یہ خوبصورت فون شیشے سے بنے ایک باکس میں رکھا گیا ہے اور اس پر شہزادی ڈیانا کا نام درج ہے۔
 

image


شہزادی ڈیانا کی حادثاتی موت کے بعد ان کے کمرے میں ان کی کئی تصاویر لگائی گئی ہیں جنھیں مختلف اشیا پر پرنٹ کیا گیا ہے۔
 

image


برطانوی شاہی جوڑے کی متوقع آمد کے لیے لیڈی ڈیانا کے کمرے کا فرش پالش کیا گیا جبکہ میس کے بعض دیگر حصوں میں بھی کام کیا گیا۔
 

image


سنہ 1961 میں ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر پرنس فلپ جب خیبر پاس دیکھنے آئے تو انھوں نے دوپہر کا کھانا یہی میس میں کھایا۔

بعد ازاں ملکہ الزبتھ نے اپنی اور شہزادے کی ایک تصویر پر دستخط کیے اور میس کے لیے بطور تحفہ بھیجی۔ بڑے سائز کی یہ تصویر نمایاں طور پر میس کی گیلری میں آویزاں ہے۔
 

image


کہتے ہیں کہ سنہ 1842 میں برطانوی فوج کے ڈاکٹر ولیم برائیڈن اپنے 17 ہزار سے زائد فوجی دستے میں وہ واحد شخص تھے جو بچ نکلے۔ ان کے تمام فوجی خیبر پاس کی دوسری طرف افغان جنگجوؤں نے ہلاک کر دیے۔

قبائل کا رویہ اپنی زمین بچانے میں ہمیشہ ایسا ہی رہا اور یہی وہ مشکل جنگ تھی جو یہاں فورس کے قیام کی بنیاد بنی۔

یہ وہ پہلی رجمنٹ ہے جو برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند میں قائم کی تھی۔

دنیا کی اہم ترین شخصیات جن میں مختلف ممالک کے شاہی خاندان، صدور، وزرائے اعظم اور فوجی جرنیل شامل ہیں، نے طورخم بارڈر اور خیبر رائفلز میس کا دورہ کیا۔
 

image


ان شخصیات کو مشہور بریفنگ پوائنٹ پر علاقے کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے جہاں کھڑے ہو کر دوسری جانب پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی سڑک ہے جو افغانستان اور پاکستان کو جوڑتی ہے۔ یہی درہ خیبر ہے۔

برطانوی شاہی خاندان، ایرانی شاہی خاندان، تھائی لینڈ کے شاہی خاندان سمیت ان کئی شہزادوں اور شہزادیوں کی تصاویر یہاں لگائی گئی ہیں جنھوں نے یہاں مختلف اوقات میں دورہ کیا۔
 

image


میس کی دیواروں پر بانی پاکستان محمد علی جناح اور امریکی صدر نکسن، جان ایف کینیڈی، کارٹر، بش سینیئر، کلنٹن، تھیچر کی تصاویر آویزاں ہیں۔

مشہور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینڈی بھی یہاں آ چکی ہیں۔
 

image


قائد اعظم کی اس تصویر کے حوالے سے یہاں موجود اہلکار نے بتایا کہ قائد اعظم نے جب طورخم سرحد کا دورہ کیا تو افغانستان کی جانب واقع ایک فوجی گارڈ نے ان سے ہاتھ ملایا تھا۔
 

image


بعد میں پتا چلا کہ فوجی کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا جبکہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس گارڈ کو سزا کے طور پر پھانسی دی گئی تھی۔

انڈیا سے یہاں ایک بار کرکٹ ٹیم نے دورہ کیا، ٹیم کی تصاویر اور سچن ٹنڈولکر کا دستخط شدہ بلا بھی یہاں محفوظ ہے۔
 

image


یہاں کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ میس میں لگی ہر تصویر دستخط شدہ ہے۔ یہاں تک کہ گروپ فوٹوز پر بھی چاروں جانب گروپ میں شامل افراد کے دستخط ملتے ہیں۔
 

image


میس کے لان میں دو چیزیں خصوصی توجہ کی حامل ہیں۔ ایک قیدی درخت اور دوسری نہایت قدیم گھڑیال۔

’میں گرفتار ہوں‘ یہ الفاظ اس درخت پر لگی ایک پلیٹ پر لکھے ہیں۔ برگد کے اس درخت کو سنہ 1898 کی ایک شام برطانوی فوجی افسر نے یہ سزا دی تھی۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ اس میس میں قیام پذیر ایک برطانوی افسر ایک شام شراب کے نشے میں وہاں سے گزرا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ درخت ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔
 

image


انھوں نے درخت کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن انھیں محسوس ہوا کہ یہ درخت نہیں رک رہا اور ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فوجی افسر نے میس کے سارجنٹ کو حکم دیا کہ اس گستاخ برگد کو فوراً گرفتار کیا جائے۔

ظاہر ہے افسر کے حکم کی اسی وقت تعمیل ہوئی۔ اور برگد کے پیر کو زنجیریں پہنا دی گئیں۔ اس دن سے یہ برگد زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
 

image


اسی لان میں سن ڈائل بھی ہے۔ اگر آپ نے وقت دیکھنا ہو تو اس گھڑی کی ایک سوئی کا رخ اس سمت موڑ دیں جہاں سورج ہے۔

اس پر لگے میٹر پر دیکھیں تو یہ آپ کو بالکل صیحیح وقت بتائے گی۔ ہم نے وقت دیکھا تو اپنی جدید اور اس قدیم گھڑی کے وقت میں ایک منٹ کا فرق بھی نھیں تھا، حتیٰ کہ تاریخ بھی درست تھی۔

بس ایک خامی ہے کہ یہ گھڑی دن کے اوقات تو بتا سکتی ہے لیکن رات کے لیے جدید گھڑیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: