میری انتہائی سادہ دیہاتی ،سفید ان پڑھ ماں عجیب سی باتیں
کرتی تھی۔”دل کی آنکھ سے دیکھ،دل کے کان سے سن”میں نے انہی سے سنا تھا۔بہت
جری اوربہادر،اب تونئی نسل کی بچیاں چھپکلی اورمعمولی سے کیڑوں کوسامنے
دیکھ کر اپنے اوسان خطا کردیتی ہیں اوراپنی چیخوں سے آسمان سرپراٹھالیتی
ہیں لیکن کیامجال کہ رات کاگھپ اندھیرایاکبھی بادلوں کی کڑکتی گرج چمک سے
انہیں کبھی خوف آیاہو۔یوں معلوم ہوتاتھا کہ خوف جیسی کوئی شئے بھی ان سے
خوفزدہ ہے۔سفید موتئے کی کلیوں یاگلاب کے پھولوں کوایک بڑی تھالی میں رکھ
کران سے باتیں کرناان کاایک معمول تھا۔میں ان سے کبھی پوچھتا کہ “ماں
جی!کیایہ آپ کی باتیں سنتے ہیں؟”توفوراًمسکراکرفرماتیں کہ”یہ نہ صرف سنتے
ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں،تجھے جس دن ان سے کلام کرناآگیاپھردیکھناتجھے کسی
کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔خفابھی ہوجاتے ہیں یہ تو…….یہ پودے،درخت اورپھل
پھول بہت لاڈلے ہوتے ہیں،بہت پیارچاہتے ہیں،اسی لئے اکثرماں باپ اپنی اولاد
کوپھول کہہ کرمخاطب ہوتے ہیں۔” میں خاموش رہتا،کچھ سمجھ میں نہ آتالیکن اب
کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوں اورشائدیہ انہی کی دعاؤں کاثمرہے۔
شوہرکاانتقال ہوگیاتوسب بچوں کی باپ بھی بن گئیں۔بڑی سی چادرمیں لپٹاہوارعب
دارچہرہ،جس نے گھرکے تمام امورکو خود اعتمادی کے ساتھ سنبھالادیا۔کبھی نہیں
جھکیں،سماج کوکئی مرتبہ جھکتے دیکھا۔اپنے شوہرکی طرح مجبوروں کیلئے انکارتو
انہوں نے سیکھاہی نہیں تھا۔جہاں سے گزرتیں،لوگ سرجھکاکرسلام کرتے،وہ لمحہ
بھرکورک کران کی خیریت دریافت کرتیں “بالکل شرم نہ کرنا،کسی چیز کی ضرورت
ہوتوبتادینا۔”ان کی گفتگوکایہ آخری جملہ ہوتااوروہاں سے آگے بڑھ جاتیں۔سب
بچوں کی پڑھائی اوردوسرے معمولات پرمکمل اورگہری نظر،مجال ہے کوئی عمل ان
سے پوشیدہ رہ سکے۔وہ اکژ میرے کپڑے اس اندازاورنزاکت سے دھوتیں کہ ان کوبھی
کہیں چوٹ نہ آجائے۔میں اکثران کے پاس بیٹھ جاتااورکسی کتاب یا اخبار سے
کوئی کہانی قصہ پڑھ کران کوسناتارہتالیکن اس کہانی یاقصہ پران کاتبصرہ سن
کر یقین نہیں آتاتھا کہ میری ماں بالکل ان پڑھ ہے۔
ایک دفعہ میں سامنے بیٹھاکچھ سنارہاتھاکہ اچانک ایک پتھرمیری پشت کی طرف
دیوارپردے مارا۔میں اس اچانک عمل پر خوفزدہ ہوگیا،پیچھے مڑکردیکھا توایک
چھوٹاسا سانپ تھاجواس پتھرکی ضرب سے کچلا گیا۔وہ غضب ناک شیرنی لگ رہی
تھیں۔”ماں جی!اس نے آپ کاکیانقصان کیاتھا کہ آپ نے اس کایہ حشرکردیا؟”۔”کچھ
نہیں،خاموش رہو،،میرے اس سوال پر مجھے سینے سے چمٹاکربولیں”یہ اگرمیرے پھول
کوڈس لیتاتب کیاکرتی؟”کچھ لوگ بھی بہت معصوم لگتے ہیں لیکن ان میں
زہربھراہوتاہے،ڈس لیتے ہیں پھربھی ناآسودہ رہتے ہیں،،ہاں!یہ میں نے انہی سے
پہلی دفعہ سنااورسیکھاتھا۔زندگی بھریہی ان کاعمل رہا،بہت مضبوط اعصاب کی
مالک تھیں،ہردم نبردآزما…….سماج سے،وقت سے،حالات کے جبرسے۔
ہم سب کورات جلدسونے کاحکم تھالیکن خود کب سونے کیلئے جاتی تھیں،کسی کوعلم
نہیں تھا۔یہ پتہ ہے کہ صبح چاربجے اٹھ کرگھرکے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں
تھیں اورسب کوفجرکی نمازپڑھنے اورقرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام سختی سے
کرواتی تھیں۔صبح سویرے اٹھ کریوں محسوس ہوتاتھاکہ کوئی سارے گھرکی باقاعدگی
کے ساتھ نگرانی کررہاہے۔میرے پالتو کتے کوہرروزشاباش دیتی کہ ساری رات تم
نے کس قدرذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔اس سے یوں باتیں کرتیں جیسے وہ اسی
ستائش کامنتظرہے۔ایک فاصلے پرسرجھکائے کھڑا،کیامجال کہ اپنی حدودسے
تجاوزکرے۔ایک مرتبہ اس کوسمجھادیا کہ دہلیزکے اس پاررہناہے۔بس ساری عمرگرمی
ہویاسردی،کوئی بہانہ بنائے بغیر،خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتارہااور
اپنی مالکہ کے احکام کی تعمیل کی!مجھے آج تک معلوم نہیں ہوسکاکہ سب کچھ
میری ماں نے کہاں سے سیکھاہے جس نے آج تک کسی کتاب کوچھؤا تک نہیں،کسی مکتب
کودیکھاتک نہیں…….یہ کیااسرارتھا؟اب اس کی جتنی گہرائی میں جاتا ہوں عقل و
دانش کے نئے نئے پرت کھلتے جاتے ہیں۔ان کے جملوں کی سادگی میں چھپی حکمت
اورحلاوت آج پھرشدت سے محسوس کر رہاہوں۔ وہی محبت میں گندھی ہوئی ماں،جب
بھی لکھنے کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں،فوراًاپنی کسی یادکے آنچل سے نمودارہوکر
اسی طرح میراہاتھ پکڑکرلکھناشروع کردیتی ہے جس طرح بچپن میں تختی پرلکھوانے
کی مشق کرواتی تھیں۔
ان کی اپنی ایک کابینہ تھی۔اڑوس پڑوس کی کئی عورتیں اپنے دکھوں کاغم ہلکا
کرنے کیلئے موجود رہتی تھیں۔ایک دن میں ان کویہ کہتے سناکہ”بہن چھوڑواس
کو،دفع کرواسے،بے غیرت پچاس بھی ہوں توکیاکرنا،غیرت مندتوایک بھی بہت
ہے،جواپنے گلے کی حفاظت نہ کرسکے وہ چرواہاکیسا،بہن چھوڑو!”میں توابھی غزہ
پربمباری نہیں بھولا، صابرہ اورشتیلہ کے زخم اب تک نہیں
بھرے،بوسنیااوربھارتی گجرات کےاحمدآبادکے زخم ابھی تک دل میں تازہ ہیں کہ
اب دل کی دھڑکنیں بندکرنے کیلئے پچھلے 73دنوں سے سلگتےکشمیرنے شب
وروزکاسکون چھین لیاہے۔ساری دنیاکے سامنےکیسی کیسی لہورنگ تصویریں ہیں
اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا کی زینت……..پھول اور کلیاں خوں میں نہائی
ہوئی،معصومیت کوقتل کررہے ہیں،کڑیل نوجوانوں کودرگورکرکےنسل کشی کررہے
ہیں۔ہنس اورکھیل رہے ہیں انسانیت کے ساتھ۔ مہلک ترین ہتھیاراستعما ل کر رہے
ہیں، منوں بارودبرسارہے ہیں،وہ کچھ نہیں دیکھ رہے،بس آگ وخون کی ہولی کھیل
رہے ہیں۔وہ کتنے جوش اورتکبر سے کہہ رہے ہیں “کہ ابھی توشروعات ہیں،آگے آگے
دیکھتے جاؤ”ہاں!قصرسفید اورمغربی آقاؤں کی لونڈی اقوام متحدہ کے سیکرٹری
بھی ہلکی سی مذمت کر رہے ہیں۔دنیابھرمیں مظاہرے ہورہے ہیں لیکن انہیں کسی
کی بھی پرواہ نہیں۔وہ کوئی اصول اورکوئی ضابطہ نہیں مانتے۔دنیابھرکے اصول
وضابطے صرف امت مسلمہ کیلئے ہیں۔دنیابھرمیں57نام نہادمسلمان ریاستیں
ہیں،ایک دونہیں پورے 57 ممالک ہیں لیکن…….لیکن کتنے پرسکون ہیں،ان میں
توچندایسے حکمران بھی ہیں جوکثرت سے آبِ زم زم پیتے اورقربانی کازعم رکھتے
ہوئےبھی گائے کاپیشاب پینے والےاورمظلوم کشمیریوں کابیدردی سے قتل عام
اورمسلمان بچیوں کی عصمت دری کرنے والے کے گلے میں اپنے ملک کاسب سے
بڑااعزازپہناکرذرہ بھرشرم محسوس نہیں کررہے بلکہ ہمیں التانصیحت کرتے
ہوئےکشمیرکوامت مسلمہ کامسئلہ کرنے سے منع کرنے چلے آئے اورہماراحکمران
اپنے گھر کے تمام خطرات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے مسائل کی ثالثی
کیلئے منت سماجت میں مصروف ہے جبکہ غیرت سے عاری ان حکمرانوںکی افواج،ان کے
گولہ بارود کے خزانوں کوزنگ لگ رہاہے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے
ہیں،سب دادعیش دیتے ہوئے اوردنیابھرکی عیاشی کاساماں لئے ہوئے……بے حسی کا
شکاراورسفاکی کی تصویر ہمارے مسلم حکمران!
مجھے آج پھر اپنی ماں شدت سے یاد آرہی ہے،چٹی ان پڑھ،جو کہتی تھی کہ”بے
غیرت پچاس بھی ہوں توکیا کرنا،ہاں غیرت مند ایک بھی بہت ہے۔”مجھے آج پچاس
میں سات کااضافہ کرنا ہے۔لیکن وہ غیرت مند ہے کہاں….کیا ایک بھی غیرت مند
نہیں رہا…….سب کے سب…….!!!مجھے آپ سے کچھ نہیں کہناقارئین!مجھے تو آپ نے
پہلے ہی اپنی محبت کی سولی پرلٹکا رکھا ہے۔میں ان سے کیا کہوں!وہ بھی نہیں
رہیں گے اورہم بھی،کوئی بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کا!بس یہی
سوچ کرندامت سے خاموش ہوجاتاہوں کہ شائد یہی حق کے علم بردارہوں جو اپنے
ہاتھوں میں اپنے معصوم بچوں کے لاشے بطورعلم اٹھائے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے
ہیں،کوئی بھی تو علم سرنگوں کرنے کوتیارنہیں۔اب تولاکھوں علم راہ گزاروں
میں عزاداراٹھائے نکل آئے ہیں!!!یہ منیر نیازی کیوں تڑپ اٹھے:
سن بستیوں کاحال جوحدسے گزرگئیں
ان امتوں کاذکرجورستوں میں مرگئیں
کریاد ان دنوں کوکہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جوخاک وخون کی دہشت سے بھرگئیں
صرصرکی زدمیں آئے ہوئے بام ودرکودیکھ
کیسی ہوائیں کیسانگرسردکرگئیں
کیاباب تھے یہاں جوصداسے نہیں کھلے کیسی دعائیں تھیں جویہاں بے اثرگئیں
تنہااجاڑبرجوں میں پھرتاہے تومنیر وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
کیٹاگری میں : آج کاکالم، پاکستان، کشمیر
|