کامیابی کے متلاشی

تحریر: سید مصعب غزنوی
آج مسجد میں معمول سے زیادہ رش دیکھنے کو مل رہا تھا، حیرانی تو ہورہی تھی مگر دل کو خوشی بھی محسوس ہوئی۔ نماز کے بعد منیر میرے پاس آیا اور بولا، ’’بھائی کل رزلٹ ہے دعا کر دیجیے گا‘‘۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ رش کیوں ہے آج مسجد میں اور سب کے سب نوجوان لڑکے ہیں۔ رزلٹ والے دن مجھے منیر اور اس کے کچھ دوست ملے میں نے رزلٹ کے بارے میں دریافت کیا تو منیر کا چہرہ لٹکا ہوا پایا اور باقی دوست کچھ خوش تھے اپنے رزلٹ سے اور کچھ اداس۔ یعنی جس کا نتیجہ بہتر آیا وہ خوش تھا اور جس کا بہتر نہیں آیا وہ مایوس اور پریشان تھا۔ اب مجھے موقع ملا اور میں نے سب کو چائے پر مدعو کرلیا اور ساتھ میں کہہ دیا اپنے باقی دوستوں کو بھی ساتھ لے کر آئیے گا۔

مغرب کی نماز کے بعد منیر اور اس کے باقی دوست گھر آئے جنہیں میں نے مہمان خانے میں بٹھایا اور سب کے لیے چائے تیار کروائی اور چائے کے ساتھ کچھ ہلکا پھلکا کھانے کی چیز بھی رکھ لی تاکہ ہماری گفتگو میں بوریت یا سستی پیدا نہ ہو۔ پہلے سب سے تعارف کیا اور ان کے نتیجہ امتحانات کے بارے میں معلومات لیں اور پھر سب سے اپنا مختصر تعارف کروایا۔ کچھ لڑکے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے تھے کچھ اوسط نمبروں سے اور کچھ بہت کم نمبروں سے اور کچھ پاس ہی نہیں ہوئے تھے۔

اب سب کا دھیان اپنی طرف پاکر میں ان سے مخاطب ہوا، ’’دیکھیں آپ سب میرے بھائی ہیں اور مجھے اندازہ ہے کہ امتحانات میں کامیابی کے لیے آپ سب لوگوں نے محنت کی تھی مگر کسی نے زیادہ اور کسی نے کم کی جس نے جتنی محنت کی اس کا ویسا ہی نتیجہ آیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کسی نے محنت زیادہ کی ہو مگر اس کے باوجود اس کے نمبر کم آئے ہوں۔ انسان ہیں ہم سب غلطی کوتاہی ہو جاتی ہے سب سے کہیں چیک کرنے والوں سے غلطی ہوگئی ہوگی مگر یہ بات درست ہے کہ امتحانات میں کامیاب ہونے کے لیے محنت سب نے کی تھی کیوں کہ محنت کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ آپ لوگ اپنے امتحانات میں کامیاب ہو پاتے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘

جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں نے سب کو ہوشیار کرنے کے لیے ان سے سوال کیا کہ کسی کو بوریت نہ ہوجائے یا کسی کو سستی نہ چڑھ جائے۔ ’’لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم سب اس بات سے بھی واقف ہیں کہ یہ دنیا کی کامیابی ہے اور ایک عارضی کامیابی ہے۔ اس کا تعلق فقط ہماری چھوٹی سی دنیاوی زندگی سے ہی ہے۔ کیا ہم سب واقف ہیں اس بات سے؟‘‘

جی بھائی ہم سب واقف ہیں اس بات سے۔ ’’جی بالکل ہم سب واقف ہیں اور اس بات کو بہتر طریقے سے جانتے بھی ہیں مگر اندازہ کر لیں ہم اس دنیاوی کامیابی اور دنیاوی امتحانات کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں جو کہ عارضی کامیابی ہے مگر ہم حقیقی کامیابی کے لیے محنت نہیں کرتے جس کامیابی سے ہماری ہر چیز جڑی ہوئی ہے۔ جس طرح آپ میں سے وہ لوگ خوش ہیں جن کے امتحانات میں نمبر اچھے ہیں اور وہ لوگ پریشان اور مایوس ہیں جن کے نمبر کم ہیں یا جو امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پائے مگر جو لوگ کامیاب نہیں ہو پائے وہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اب بھی موقع ہے۔ وہ دوبارہ محنت کرکے امتحان دے کر پاس ہو سکتے ہیں اور جن کے نمبر کم ہیں وہ بھی دوبارہ محنت کریں تو اچھے نمبروں میں پاس ہو سکتے ہیں۔

لیکن جو نتیجہ ہماری زندگی کے امتحان کا آنا ہے اس میں دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ ہم نے آج اس کامیابی کے لیے جو محنت کرنی ہے اس کا پورا پورا بدلہ ملنا ہے۔ جس طرح آج امتحانات میں کامیاب ہونے والے لڑکے خوش ہیں بالکل اسی طرح اس دن حقیقی کامیابی پانے والے لوگ بھی انتہائی خوش ہوں گے جن کی خوشی کی انتہا نہیں ہوگی۔ جس طرح آج اپنے امتحانات میں ناکام ہونے والے لڑکے پریشان اور مایوس ہیں بالکل اسی طرح اس دن اپنے اس حقیقی امتحان میں ناکام ہونے والے لوگ بھی انتہائی پریشان اور مایوس ہوں گے اور غم سے نڈھال ہوں گے اور اس دن کی ہولناکی انہیں بہت تڑپائے گی۔ ان لوگوں کو دوبارہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں اور دوبارہ تیاری کر کے رب کے حضور پیش ہوں۔

قرآن پاک میں اﷲ پاک ایسے لوگوں کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ، کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔ (السجدۃ)
پھر جب انہیں دوزخ کے کنارے کھڑے کیا جائے گا پھر وہ کہیں گے، کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ (الانعام)

پھر انہیں جب جہنم میں پھینک دیا جائے گا ان کے اعمال کے بدلے میں تب وہ پکاریں گے، وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔ (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں ہے‘‘۔ (فاطر)

میں نے دیکھا کہ تمام لڑکے انتہائی انہماک اور دھیان سے میری بات سن رہے تھے اور سب کے چہروں پر پریشانی کے اور ندامت کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے سب کو دوبارہ مخاطب کیا اور کہا، ’’میرے بھائیو یہ دنیاوی محنت بالکل ضروری ہے تاکہ آپ لوگ زندگی میں باعلم لوگوں میں گردانے جائیں، آپ سب کو دنیا میں ترقی کرنا ہے مگر اس سب سے کہیں زیادہ آخرت کی کامیابی کے لیے محنت ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرے پاس جو آپ لوگ وقت نکال کر آئے اس کا آپ کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔ اس لیے آج سے اپنی آخرت کی تیاری کے لیے بھی محنت شروع کریں اور ہاں ایک بات ہماری آخرت کی کامیابی کے لیے وہ تمام عوامل ضروری ہیں جو بطور مسلمان ہم پر فرض ہوتے ہیں۔ خود بھی نیکی کرنی ہے اور نیکی کرنے کا دوسروں کو بھی کہتے رہنا ہے۔ جہاں ضرورت ہو حق کے گواہ بن کر کھڑے ہونا ہے وہ حق جو اﷲ تعالی اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچا ہے تب ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔
بات کے اختتام پر میں نے سب سے وعدہ لیا کہ وہ اپنی محنت جاری رکھیں گے اور دنیا کے ساتھ ساتھ حقیقی کامیابی آخرت کے لیے بھی محنت کریں گے اور آخرت کو اپنی ترجیح اول میں رکھیں گے اس کے بعد منیر اور اس کے سب ساتھی رخصت ہوگئے اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ نوجوان میری بات اچھے سے سمجھ گئے کیوں کہ انہیں کامیابی کی تلاش تھی مگر شاید ابھی تک کسی نے حقیقی کامیابی کے بارے میں صحیح سے بتایا یا سمجھایا نہیں تھا مگر یہ کامیابی کے متلاشی تھے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.