دنیا کی 90 معیشتیں بحران میں

عالمی سطح پر معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے اور دنیا کی 90 معیشتوں کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے اثرات دنیا بھر کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور ہر جانب حکمران طبقہ ہیجان اور افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ پرانے اتحادٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ منڈیوں تک رسائی کی جنگ شروع ہو چکی ہے، طاقتور کمزور کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ درحقیقت عالمی سطح پر نظام سرمایہ داری زوال کی جانب محوسفر ہے اور اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ اس وقت اس کے پاس موجود نہیں۔ نظام کے زوال اور انہدام کی جانب اس کے سفر کا اظہار معیشت سے لیکر سیاست اور سفارت کاری تک ہر جگہ نظارہ کراتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ اور چین کی معاشی جنگ گو کہ ختم کرنے کا اعلان کر چکی مگر ختم ہوئی نہیں ہے۔امریکی معیشت سمیت دنیا بھر کی معیشتیں رو بہ زوال ہیں، یورپ، کینیڈا، جاپان، جرمنی، ہندوستان، چین، برطانیہ سمیت دنیا کی تمام دیگر ترقی یافتہ معیشتیں بھی شدید بحرانوں کا شکار ہیں۔ اس نئے مالیاتی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اور تو اور خود اقوام متحدہ شدید مالی بحران میں ہے اور اگر رکن ممالک نے اپنے واجبات ادا نہیں کیے تو اقوام متحدہ کے ملازمین کے لئے آئندہ ماہ نومبر 2019 کی تنخواہ کے انتظام مشکل ہو جائیں گے۔اقوام متحدہ کے تحت مالی معاملات دیکھنے والی ففتھ کمیٹی کی میٹنگ سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عالمی ادارہ کے مالی حالات اس قدرد گرگوں ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اس سال کی ابتدا میں ہنگامی بنیادوں پر کی گئی بجٹ کٹوتی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس وقت پروگراموں کی منصوبہ بندی کے لئے بجٹ نہیں رہا، امن فوج کے لئے بھی رقم ختم ہوچکی ہے، انہوں نے تمام ایسے ممالک سے واجبات کی فوری ادائیگی کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے کل ملازمین کی تعداد تیس ہزار ہے اور اب بھی ادارہ کو 230 ملین ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے، غیر ضروری سفر اور ملاقاتوں کو بھی ختم کر دیاگیاہے۔ تین اکتوبر تک 193 رکن ممالک میں سے 128 نے 2019 کے تمام واجبات ادا کر دیئے ہیں۔ ادارہ کے پاس مالی خسارے کی ایک وجہ امریکہ ہے جو خود مالیاتی بحران کا شکار ہے جسکا نیورلڈآرڈرمضبوط معیشت کے زور پر چلتا تھا اب معاشی انحطاط کی وجہ سے در در ٹھوکریں کھا رہا ہے۔؂

امریکہ میں معاشی بحران کے سبب شام سے انخلا ممکن ہوا۔ عراق اور افغانستان سے فوج کی واپسی بھی معاشی بحران کا پتہ دیتی ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کے معینہ بجٹ میں 22 فیصد کی ادائیگی کرتا ہے، مگر نہیں کی۔ 2019 سے شروع ہونے والا عالمی معاشی بحران سابقہ معاشی بحرانوں 1930 2008 سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ 2008 کا معاشی بحران دنیا کی مضبوط معیشت کا حامل امریکہ جسکی معیشت تقریبا منہدم ہوچکی تھی مگر بش انتظامیہ نے 2006 میں متبادل راستے تلاش کرنا شروع کر دئیے تھے۔ اس بحران میں امریکہ میں دوکانیں، مکانات تو بہت تھے لیکن خریدنے والے انتہائی کم تھے۔مکان مالکان پریشان تھے کہ انکی املاک فروخت نہیں ہو رہیں اور دن بدن ان کی قیمت گرتی ہی جارہی ہے۔ جن کاروباری افراد نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے بینکوں سے جو قرضہ حاصل کیا تھا اس کی اقساط ادا کرنا بند کر دی تھیں۔ اس کے بدلے اپنی پراپرٹی بینکوں میں رہن رکھوادیئے۔بنک بھی وہ پراپرٹی فروخت کرنے سے قاصر ہی رہے جس سے کئی بینک اور انشورنس کمپنیاں بند ہونے لگیں، بینک پریشانی کے عالم تھے، استعمال کی اشیا کی خریداری میں کمی ہونے لگی، اسٹاک مارکیٹ پر اس کا اثر پڑا اور بے روزگاری میں بھی زبردست اضافہ دیکھا گیا۔ امریکہ صدر اوباما نے اس معاشی بحران کو قابو کرنے کی کوشش کی اور معیشت کی تعمیر جدید کا عمل شروع کیا، شرح سود میں کمی کی گئی، بینکوں کو بڑے پیمانے پر قرض دیئے گئے۔ ٹیکس میں کٹوتی کے ذریعہ چھوٹی تجارتوں کی مدد کی گئی اور ان لوگوں کو روزگار فراہم کئے جو ملازمتوں سے محروم ہو گئے تھے۔ دوسال لگے، یہ عالم اس سپر معاشی طاقت امریکہ کا تھا۔ موجودہ معاشی بحران نئے معاشی نظام کی تشکیل کرے گا اور نئے بلاک کی بنیاد رکھے گا ، نئے عالمی معاشی بحران کی شہادت خود عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹ لینا جار جیوا کی زبانی یہ ہے کہ دنیا کی معیشت سست روی کے دور سے گزر رہی ہے۔ وہ ترقی تو کررہی ہے مگر ترقی کی رفتار بے حد سست ہے۔ بلکہ دو سال پہلے دنیا کی معیشت بلندی کی طرف جا رہی تھی مگر اب سست ہونے لگی ہے۔ اس وقت دنیا کی 90 فیصد معیشتیں سست روی کی شکار ہیں۔ 20-2019 میں معاشی شرح نمو گزشتہ دس سالوں میں سب سے کم ہوگا۔امریکہ اور جرمنی جیسے ملکوں میں بے روزگاری تاریخی طور پر کم ہیں، لیکن وہاں بھی معاشی سرگرمیاں نرم پڑتی جارہی ہیں، عالمی کاروبار رک سا گیاہے، ہندوستان اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشت پر مندی کا اثر ہونے والا ہے۔ آئی ایف ایف کا آئیندہ ہفتے واشنگٹن میں منقعدہ اجلاس میں 189 ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔ سربراہ نے رکن ملکوں سے حل کے ساتھ آنے کے لئے کہاہے۔ ۔۔۔۔


 

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 19281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.