اخلاقی جرائم۔ فکری تبدیلی کی ضرورت

پاکستان میں خواتین کے ساتھ پر تشدد اور بدسلوکی کے واقعات تسلسل سے ہوتے رہتے ہیں لیکن بعض اوقات ان کی سنگینی میں اس قدر اضافہ ہوجاتا ہے اور عوامی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں اور ایسے واقعات کے اس سدباب کے لئے اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظام انصاف کو کوستا ہے تو کوئی سخت قوانین وضع کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ کسی کی رائے میں یہ معاشرتی المیہ ہے تو کوئی اس کی وجوہات جہالت میں تلاش کرتا ہے۔ یہ تمام وجوہات اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم ہوسکتی ہیں لیکن ہماری رائے میں سب سے اہم یہ ہے کہ لڑکوں کی پرورش کرتے ہوئے بچپن سے ہی انہیں عورت کی عزت کرنا سیکھائیں اور کبھی یہ باور نہ کرائیں محض جنس کے فرق کی وجہ سے تم عورت سے بر تر ہو۔ اس تربیت کا آغاز ابتدا سے ہی اور گھر سے کیا جانا چاہیے۔ جس گھر میں عورت کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس گھر کے بچے بھی بڑے ہو کر عورت کی عزت کرتے ہیں۔ جن گھروں میں عورتوں سے بد سلوکی اور عزت نفس مجروح کی جاتی ہے ان گھروں کے بچے بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔ جس گھر میں خاوند اپنی بیوی کی عزت نہیں کرتا اور اسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس گھر کے لڑکے یہی عمل اپنی شریک حیات کے ساتھ دہرائیں گے۔ سخت قوانین اور حکومتی اقدامات وہ تبدیلی کبھی نہیں لاسکتے جو ذہنی اور فکری تبدیلی لاتی ہے۔ ابتدا سے ہی لڑکوں کو یہ تربیت دینی چاہیے کہ وہ عورتوں کی عزت کریں۔ عورت بھی انہیں جیسی انسان ہے اور محض جنس کی وجہ سے اس مرتبہ میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ صدیوں سے جس معاشرے کا رویہ مردوں کی بالا دستی کی صورت میں رہا ہے وہاں فوری تبدیلی ممکن نہیں لیکن بہتری کی طرف سفر ممکن ہے۔ تبدیلی فکری اور ذہنی تغیر سے ہی ممکن ہے اور کوئی کسی بھی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک وہ خود اپنی نفسیات، طرز فکر اور عمل میں تبدیلی پیدا کرنے کی جستجو نہ کرے۔ قرآن حکیم نے بہت خوبصورت انداز میں سورہ الرعد کی آیت 11 میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یْغَیِّرْ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یْغَیِّرْوا مَا بِاَنفْسِھِم یعنی اﷲ تعالی کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے۔ اسی اصول کو اقوام سابقہ کی تاریخ کے تناظر میں سورہ الانفال کی آیت 53 میں یوں بیان کیا ہے یہ اﷲ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اﷲ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

گویا دونوں آیات کریمہ کے مطابق تبدیلی کا دارو مدار انسانی نفسیات کی تبدیلی میں مضمرہے۔ تبدیلی محض بیرونی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ اندر کے ایک گہرے اور ہمہ جہتی فکر کا نتیجہ ہوتی ہے جو عمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ قوم کی اخلاقی حالت میں بہتری لانے اور معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لئے ذہنی اور فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ جب یہ صورت پیدا ہوجائے گی تو پھر یہ سب برائیاں بھی ختم ہوجائیں گی جنہوں نے ہمارے معاشرے کا کا چہرہ پراگندہ کررکھا ہے۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264365 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More