ہم نے اسلاف سے جو میراثِ علم پائی تھی وہ گنوا دی

’’آدھی روٹی کھائیں بچوں کو پڑھائیں‘‘ خانقاہ برکاتیہ کے پیغام کی عصری معنویت

 اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے مسلمانوں کو ہر میدان میں کم زور و پست کرنے کی سازشیں رچی گئیں۔ ایک صدی قبل جب کہ انگریز اس ملک پر قابض تھے؛ انھوں نے مسلم سلاطین و شاہانِ مغلیہ کے ذریعے مدارس کے لیے مختص جائیدادوں/املاک/مواضعات کو چھین لیا، وسائل و معاشی امداد کے لیے مختص ذرائع پر قدغن لگا دیا۔ ہزاروں مدارس تعطل، جمود اور انحطاط کے شکار ہوئے۔ جس سے استقامت کے ساتھ جاری مسلم درس گاہی نظام کا زوال ہوا۔ وسائل سے محرومی کا صدمہ کم نہ تھا۔

پس منظر:
۱۸۵۷ء میں علما کی شجاعت، عزیمت، استقامت اور یقیں محکم نے انگریز کو یہ احساس دلایا کہ ہندوستان پر اقتدار اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا؛ جب تک علماے حق موجود ہیں۔ اسی دَور کے اکابر علما جنھوں نے انگریز سے جہاد کا فتویٰ دیا ؛ یا فتواے جہاد پر تصدیق کی اُنھیں شہید کر دیا گیا، بعض ہجرت کر گئے، بعض کو جزائر انڈمان میں قیدو بند میں مبتلا کیا گیا؛ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم کا ایک عظیم نظام شدید طریقے سے متاثر ہوا۔بڑی بڑی درس گاہیں زوال پذیر ہو گئیں۔ مسلمان مفلوک الحال ہو گئے۔

اسی زمانے میں انگریز کی طرف سے ’’شمس العلماء‘‘ اور اعلیٰ قسم کے القابات سے مزین علما کا ایسا طبقہ بھی رہا جن پر انگریزی اکرام و نوازشات کی بارش ہوتی رہی۔ انگریزہر جہت سے مسلمانوں کو نشانہ بناتا رہا۔ مرزا قادیانی اور ان جیسے فتنوں کی مکمل آبیاری کرتا رہا۔ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں داخلی و خارجی سطح پر گستاخی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔زوال کے اُس ماحول میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی علوم و فنون میں بے مثال کتابیں لکھیں اور عہدِ زوال میں اسلاف کی علمی وجاہت وسر بلندی کا نمونہ پیش کیا۔ اسلامی علوم کی بالادستی اپنی تحقیقاتِ علمیہ سے ثابت کی۔ ۵۶؍ سے زائد علوم(قدیمہ و جدیدہ) میں آپ نے اپنی نگارشات عطا کیں؛ جو آج کے اعتبار سے سیکڑوں علوم پر مشتمل ہیں۔ جن کی اشاعت نے غزالیؔ و سیوطیؔ،شیخ عبدالحقؔ محدث دہلوی،شاہ ولیؔ اللہ محدث دہلوی، علامہ فضلؔ حق خیرآبادی کے علمی جاہ و جلال کی یاد تازہ کر دی۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ’’تحریک ترک موالات‘‘ کے غیر دانش مندانہ اعلان نے مسلمانوں کی شعبۂ تعلیم میں نوکریوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ علوم و فنون کے دُنیوی شعبوں میں ہزاروں مسلم طلبہ کا تعلیمی نقصان سیاسی دھارے سے ہوا۔جب کہ- ہندومہا سبھا- یا ان کی اس زمانے کی کسی بھی تنظیم نے مشرکین کے تعلیمی مراکز میں ایسی کوئی تحریک نہیں چلوائی؛ جس سے اساتذہ کی نوکریاں یا طلبہ کی تعلیم مجروح ہوتی! اس انحطاط کو ہم آزادی کی جدوجہد سے کس طرح تعبیر کریں؟اعلیٰ حضرت نے ترکِ موالات کے مُضر اثرات کے پیش نظر اسلامی نقطۂ نظر سے تردید میں فتویٰ جاری کیا’’المحجۃ المؤتمنۃ‘‘ جس کی اسی زمانے میں اشاعت ہوئی۔ اس کی تائید میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد، پروفیسر سید سلیمان اشرف(شعبہ دینیات) و ان کے چند رفقا نے یونیورسٹی کو تعلیمی نقصان سے بچانے کی تدبیر کی۔

بہر کیف! ایک صدی سے زیادہ مدت سے مسلمانوں کو تعلیمی سطح پر زوال پذیر بنایا جا رہا ہے۔ اور آج ہم اس موڑ پر آگئے ہیں کہ ہر تعلیمی شعبہ میں ہمارا تناسب نہیں کے برابر ہے۔ ہم نے اسلاف سے جو میراثِ علم پائی تھی وہ گنوا دی۔حصولِ علم کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ لازمی ہے۔ غفلت سے بیدار ہوں۔ اپنے شان دار ماضی سے حال کے شامیانے تعمیر کریں۔ روشن مستقبل کی بنیادیں ابھی سے مستحکم کریں۔ الحمدللہ! خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ شریف نے اس سمت توجہ دی۔ اور قوم کے تعلیمی وقار کی سربلندی کے لیے ایک مستقل نعرہ دیا: ’’آدھی روٹی کھائیں گے بچوں کو پڑھائیں گے۔‘‘

تعلیمی نعرے کی معنویت:
[۱] حضور امین ملت ڈاکٹر سید محمدامین میاں برکاتی دام ظلہ(سجادہ نشین خانقاہِ برکاتیہ، مارہرہ شریف) خدمت علم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس نعرے کی علمی و عملی تعبیر پیش کرنے کی حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں۔
[۲] علی گڑھ میں البرکات انسٹی ٹیوشنس، مارہرہ شریف میں مارہرہ پبلک اسکول اور متعدد شہروں میں اسکول و تعلیمی دانش گاہوں کا قیام اسی منزل کے تمہیدی پڑاؤ ہیں۔
[۳] خانقاہِ برکاتیہ کے افراد بھی تقریر، تحریر، عمل، فکر، تدبیر سبھی ذریعوں سے تعلیمی ذہن سازی کے لیے مستقل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
[۴] مدارسِ دینیہ دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض مدارس اپنے یہاں جدید تعلیمی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر طلبہ کو تربیت دے رہے ہیں۔ یہ پہلو خوش آئند ہے۔ لیکن اسے اجتماعی طور پر توجہ سے نوازا جائے تو کام کی رفتار بڑھ جائے گی۔
[۵] سرمایہ دار، مڈل کلاس، غریب غرض ہر طبقہ بچوں کو پڑھائے لکھائے، تعلیمی ادارے میں داخل کرائے۔
[۶] حصولِ علم کا مقصد حصولِ معاش نہیں ہونا چاہیے بلکہ پاکیزہ و معزز معاشرے کی تشکیل اور قومی ترقی ہو۔ اس رُخ سے نیتوں کی اصلاح بھی ضروری ہے تا کہ سوچ و فکر کا منفی زاویہ ختم ہو۔
[۷] ہر فرداپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ والدین بچوں کی تعلیم، بہتر تربیت، سرپرست اپنے ماتحت بچوں کی ضروریات کی جائز تشفی کا سامان کریں۔ قائدین- تعلیمی اداروں کی خامیاں دور کرائیں۔ غریب بچوں کا ایڈمیشن بہ آسانی ہو اس سمت بھی توجہ دی جائے۔ متمول افراد اپنے اطراف کے مسکین بچوں کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ قبول کریں۔ ان کا یہ عمل ’’اجتماعی تعلیمی رجحانات‘‘ کی افزائش کا سبب بنے گا۔
[۸] جس طرح جسم کی پاکیزگی ضروری ہے، اس سے زیادہ روح کی تطہیر ضروری ہے۔ جس کے لیے علم دین کا حصول ناگزیر ہے۔اس لیے بنیادی طور پر ’’علم دین‘‘ جو ’’فرض عین علم‘‘ ہے وہ پہلے حاصل کریں۔
[۹] حصولِ علم دین کے بعد زمانی ترقی، فتنوں سے آگہی، دُنیوی شعبوں میں قومی تناسب بڑھانے کے لیے معاصر علوم/سائنس و ٹکنالوجی کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
[۱۰] ذمہ دارانِ خاندان سے گزارش ہے کہ آج کی تکلیف سہہ لیں۔ معمولی غذائیں استعمال کریں۔ سادہ زندگی گزار یں۔ لیکن بچوں کی تعلیم سے غفلت نہ کریں۔ انھیں یوں ہی مت چھوڑیں۔ امکان ہے کہ تعلیم بچہ سماج، معاشرے، گھر کی کایا پلٹ دے۔ یا کم از کم صحت مند معاشرے کی تعمیر کا بڑا حصہ نہ سہی؛ ایک اینٹ کا کام تو انجام دے سکے گا۔
[۱۱] یاد رکھیں! علم سے بے رغبتی کے سبب بہت سی تکالیف کا سامنا ہے۔سیکڑوں رُخ سے ہمیں ستایا جا رہا ہے۔ قانونی اعتبار سے بھی ہم مستحکم ہو گئے اور قوم میں ماہرینِ قانون، وکلا، ججس تیار ہو گئے تو فرقہ پرستوں کے بہت سے حملوں کو ناکام کر سکتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ خانقاہ برکاتیہ کے اس نعرے کو دل میں اُتاریں۔تعلیم برائے تعمیرکو اہمیت دیں۔ ہر فرد کو علم کے زیور سے آراستہ کریں ۔ یاد رکھیں! آج کی تکلیف کل کی راحت ہوگی۔ اس لیے ظاہری اسباب کی عدم دستیابی سے علم کی راہیں ترک کر دینا غیر مناسب ہے۔اللہ تعالیٰ!ہمیں خانقاہِ برکاتیہ کے مشن ’’آدھی روٹی کھائیں گے بچوں کو پڑھائیں گے۔‘‘پر عمل کی توفیق دے تا کہ عملی استحکام کے نتیجے میں قوم کا ایک ایک بچہ علم سے آراستہ ہو لے ۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.