جاپان کے شہنشاہ ناروہیٹو باقاعدہ تخت نشین ہو گئے ہیں۔
شاہی محل میں منگل کو ہونے والی ایک سادہ تقریب میں شہنشاہ ناروہیٹو اور ان
کی اہلیہ مساکو کی تخت نشینی کا عمل مکمل کیا گیا۔
|
|
تخت نشینی اور تاج پوشی کی یہ رسم صدیوں پرانی ہے جسے مقامی زبان میں "کینجی
تو شوکی نوگی" کہا جاتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اس تقریب میں 180 سے زائد ممالک
سے آئے ہوئے سربراہان، اعلیٰ شخصیات اور 2 ہزار مہمانوں نے شرکت کی۔
|
|
مہمانوں میں برطانیہ کے شہزادہ چارلس اور پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی،
امریکی ٹرانسپورٹ سیکریٹری ایلائن چاؤ اور میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی
بھی شامل تھیں۔
جاپان کے نئے شہنشاہ ناروہیٹو کی عمر 59 سال ہے۔ رواں برس یکم مئی کو انہیں
شہنشاہ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تخت نشینی کے سلسلے میں ہونے والی
تقریب کے دوران شہنشاہ نے ریاست کے لیے اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کا عہد
کیا۔
انہوں نے تخت نشینی کے موقع پر لیے جانے والے حلف میں اس بات کا عزم ظاہر
کیا کہ وہ آئین کے مطابق اپنے سرکاری فرائض انجام دیں گے اور عوام کو متحد
رکھیں گے۔
ناروہیٹو جنگ عظیم دوئم کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایکی ہیٹو گزشتہ
دو صدیوں کے دوران جاپان کے پہلے ایسے شہنشاہ ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور
پر قبل از وقت اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ورنہ روایت کے مطابق
جاپانی بادشاہ اپنی ساری عمر تک تخت نشین رہتے ہیں۔
ناروہیٹو کی تخت نشینی کی تقریبات رواں سال یکم مئی سے گزشتہ دنوں آنے
والے سمندری طوفان کی آمد سے پہلے تک جاری رہیں جس کے بعد منگل کو یہ اپنے
اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔
تخت نشینی کی رسم محل کے سب سے مقدس سمجھے جانے والے کمرے 'متسو نون ما' یا
'ہال آف پائن' میں منعقد ہوئی۔ رسم کے دوران نئے شہنشاہ کی حیثیت سے
ناروہیٹو 21 فٹ اونچے تخت پر لگے پردوں سے رونما ہوئے۔ انہوں نے نارنجی اور
سیاہ رنگ کا روایتی لباس زیب تن کیا ہوا تھا جب کہ وہ حلف کی تحریر دونوں
ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔
|
|
جیسے ہی دو درباریوں نے تخت پر لگے پردوں کو درمیان سے دائیں اور بائیں
جانب سرکایا، شہنشاہ نے بلند آواز میں مختصر حلف سب کے روبرو پڑھا۔
ادھر 55 سالہ ہارورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ اور ناروہیٹو کی اہلیہ، ملکہ
مساکو نے 12 پرتوں والا بھاری لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس روایتی لباس کا
وزن تقریباً 15 کلو تھا۔ ملکہ مساکو بھی ناروہیٹو کی طرح پردوں سے رونما
ہوئیں۔
جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو آبے نے شہنشاہ کے چھوٹے بھائی ولی عہد شہزادہ
اکیشینو اور ان کے خاندان سمیت تمام معزز شخصیات کو مبارک باد دی۔
وزیر اعظم آبے نے 21 توپوں کی سلامی سے قبل شہنشاہ کے لیے 'بنزئی' یعنی
لمبی زندگی کے لیے تین بار با آواز بلند نعرہ لگایا جب کہ دربار میں موجود
لوگوں نے بھی نعرے کا بلند آواز میں جواب دیا۔
اس سے قبل ناروہیٹو سفید لباس پہن کر محل کے زیر زمین حصے میں واقع شاہی
آباؤ اجداد کی قبروں پر گئے۔ جاپانی شہنشاہ کی جانب سے اپنی تخت نشینی سے
قبل آباؤ اجداد کی قبروں پر جا کر انہیں اطلاع دینا بھی ایک رسم ہے۔
ناروہیٹو حالیہ جاپانی شہنشاہوں میں غیر معمولی نوعیت کے حامل ہیں کیوں کہ
ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں۔ جاپان کے موجودہ قانون کے تحت کوئی لڑکی یا
خاتون تخت کی وارث نہیں ہو سکتی۔
آنے والی نسلوں کے لیے شاہی خاندان کا مستقبل ناروہیٹو کے 13 سالہ بھتیجے
ہاہاہیٹو کے کاندھوں پر ہے جو اپنے والد ولی عہد شہزادہ اکیشینو کے بعد تخت
پر براجمان ہوں گے۔
ناروہیٹو کے دادا کو دوسری جنگ عظیم کے وقت سے جاپان میں دیوتا تصور کیا
جاتا رہا ہے لیکن 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد انہوں نے اپنی اعلیٰ ترین
حیثیت ترک کردی تھی۔ جس کے بعد سے جاپان میں شہنشاہوں کا کوئی سیاسی اختیار
نہیں رہا۔
|
|
ناروہیٹو کی تخت نشینی کی تقریب کا بہت سے جاپانیوں نے خیر مقدم کیا لیکن
کچھ لوگوں نے اسے پریشان کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اتنی
وسیع تقریب منعقد کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی
اور عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ جاپانی شہنشاہ کی حیثیت اب صرف علامتی ہے۔ بعض جاپانی شہریوں
کا خیال ہے کہ شہنشاہ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
|
Partner Content: VOA |