تحریر: محمد ارسلان رحمانی
ایک وقت تھا جب ایک علاقے سے دوسرے علاقے، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک
سے دوسرے ملک میں بسنے والے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے دوست احباب کی خیر
و عافیت معلوم کرنے کے لیے کئی کئی دن لگ جاتے، پیغام رسانی کا سلسلہ
انتہائی سست روی کا شکار تھا، جوکام اِس دور میں ایک دو دن یا چند گھنٹوں
میں مکمل کرلیا جاتا ہے وہ چند دہائیوں پہلے مہینوں میں مکمل ہوتا تھا۔
وجہ یہ تھی کہ وہ سادہ دور تھا، پرسکون وقت تھا، اس وقت سوشل میڈیا جیسی
تیز ترین و جدید ترین سہولیات میسر نہ تھی، نہ ہی اس وقت ان کا وجود تھا۔
آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر کام جھٹ پٹ ہوجاتا ہے، گھر بیٹھے ہی
چند انگلیوں کے استعمال سے کارخانے،فیکٹریاں و دیوہیکل ملز بخوبی و بآسانی
چلائی جارہی۔
سوشل میڈیا کے ذریعے سے بہت فوائد اور آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔
سوشل میڈیا کے فوائد اپنی جگہ مگر نقصانات سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ آج
کی نسل نو نے اس کے فوائد کے حصول کے بجائے اس کا بے دھڑک غلط استعمال شروع
کردیا ہے، یہود و نصاریٰ نے بھی مسلمانوں کی نئی نسل کو تباہ کرنے کی کوئی
کسر نہیں چھوڑی،ہر وہ گند جو ان میں پایا جاتا ہے وہ اس میں بھردیا، آج کا
نوجوان اس گند و غلاظت کا بے دریغ استعمال کررہا۔
جو رات اﷲ تعالیٰ نے آرام و سکون کے لیے بنائی ہے اسے جاگ کر اور غیر ضروری
کاموں میں گزارا جاتا ہے۔ دن کو اﷲ تعالیٰ نے رزق حلال کمانے کے لیے بنایا
ہے اور ہم اسے سوکر گزار رہے۔ ملکی معیشت کی کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی کہ
ہم رات بھر جاگتے اور جب کام کا وقت ہوتا تو سوتے رہتے، اس طرح خاک ملک
ترقی کرے گا۔
اس سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے جہاں دنیاوی نقصان ہورہا وہیں ہم اپنی
آخرت بھی تباہ کررہے، سوشل میڈیا پر فحش تصاویر و ناچ گانے اپلوڈ کرکے ہم
خود اپنی قبروں کو سانپ و بچھووں سے بھررہے، ظاہر سی بات ہے جب تک ہماری
اپلوڈ کی ہوئی اشیاء آگے دیکھی جاتی رہیں گی، جب تک ناچ گانے بجتے رہیں گی
تب تک ہمارے نامہ اعمال میں آٹومیٹک گناہ لکھے جاتے رہیں گے اور ہمیں اس کی
خبر بھی نہ ہوگی۔اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ کہ موت کا کسی کو پتا نہیں
ہماری موت واقع ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا پر ہمارے اپلوڈ کیے گئے ناچ گانے
ہمارے مرنے کے بعد بھی بجتے رہیں گے۔
آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا وہ دور بہتر تھا یا یہ دور۔۔ کیا وہ دور بہتر تھا
جب سب مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ حالات کا پتا ہوتا تھا، کون
کب آرہا ہے اور کب جارہا ہے سب علم میں ہوتا تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہوچکی
ہے کہ پتا نہیں ہوتا کون کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔ اس وقت جب قرآن و نماز
کی فکر ہوتی اب یہ حال ہے کہ ہاتھوں میں ہر وقت موبائل ہے اور کوئی پتا
نہیں کب اذان ہوئی اور کب نماز کا وقت نکل گیا۔
وہ وقت تھا کہ آپس میں میل جول و محبت بے انتہاتھی اب دیکھیں تو ماں باپ
بچوں کی محبت کو اور بچے ماں باپ کی محبت کو ترس گئے۔ساتھ بیٹھے باتیں کیے
ایک عرصہ بیت چکا ہوتا ہے۔ گزر وقت اگرچے سادہ جدید ٹیکنالوجی سے خالی تھا
مگر حقیقت میں اس میں اپنائیت تھی، سچائی تھی۔ بناوٹ نہیں ہوتی تھی۔ کم از
کم تلاوت سے صبح کا آغاز ہوتا تھا، نماز کی پابندی ہوتی تھی، خاندانوں میں
محبت اور پیار تھا۔ اس لیے کوشش کیجیے اس موبائل اور سوشل میڈیا سے حد
الامکان دور رہیں تاکہ حقیقی زندگی کے لطف دوبارہ سے واپس آسکیں۔
|