تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ
اسی دوران پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے افراد جن کے
ہونٹ مرجھائے ہوئے خشک پتوں کی طرح سر کے بال آسمان پر بکھرے ہوئے بادلوں
کی طرح آ نکھوں میں آ نسو سمندر میں اٹھنے والے طوفان کی لہروں کی طرح قصہ
مختصر مذکورہ افراد بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بنے مجھ سے مخا طب ہو کر
کہنے لگے کہ ہماری بھی یہ خواہش تھی کہ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں تعلیم جیسے
زیور سے آ راستہ ہو کر ملک وقوم کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا اور ہمارے
خاندان کا نام روشن کرتے لیکن افسوس کہ وہ ہماری غربت کی وجہ سے تعلیم جیسے
زیور سے آ راستہ ہونے کے بجائے ورکشاپوں ہوٹلوں اور سڑکوں پر جوتیاں پالش
کر کے ہماری معاونت کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ دوسری جانب انگریزوں کی
دلالی کرنے والے جاگیرداروں و دیگر کالے کرتوتوں کی مد میں کروڑوں اربوں
روپے کمانے والے افراد کی اولادیں امریکہ بر طانیہ اور چین جیسے ملکوں میں
تعلیم حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں انہوں نے کہا کہ ہماری یہ بھی خواہش تھی
کہ ہمارے بزرگ والدین جو بر وقت علاج معالجہ نہ ہونے کے سبب زندگی اور موت
کی کشکمش میں مبتلا اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں کا بہتر طریقے سے علاج
معالجہ کروا سکتے لیکن افسوس کہ ہم غربت کی وجہ سے اُن کا علاج معالجہ کرنے
سے بھی قاصر ہیں جن کو اذیت ناک حالت میں دیکھ کر ہم خون کے آ نسو روتے ہیں
جبکہ دوسری جانب انگریزوں کے دلال اور کالے کرتوتوں کے بے تاج بادشاہ حرام
کی کمائی گئی دولت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا بلکہ اپنے خاندان کا علاج
خواہ اُنھیں نزلہ بخار یا پھر کانسی ہو امریکہ بر طانیہ جیسے ملکوں میں
کرواتے ہیں ہماری یہ بھی خواہش تھی کہ ہم اپنی جواں سالہ بیٹیوں کے زیب تن
کپڑے جو اکثر جگہ جگہ سے پھٹ جاتے ہیں کو نئے کپڑے زیب تن کرواتے لیکن
افسوس کہ یہاں بھی ہماری غربت آ ڑے آ جاتی ہے جبکہ دوسری جانب ان ناسوروں
کی جواں سالہ بیٹیاں اپنے بوائے فرینٖڈوں کے ساتھ کلبوں میں شراب اور کباب
وغیرہ پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتی ہیں جہنیں یہ ناسور اپنا کلچر
سمجھتے ہیں اور ہم جیسے غریب افراد کی بیٹیاں اگر قرآن پاک پڑھکر بھی گھر آ
رہی ہو تو یہ ناسور انھیں بد کردار اور آ وارہ سمجھتے ہیں ہماری یہ بھی
خواہش تھی کہ ہمارے گھر جن کی چھت ہے تو دروازہ نہیں اگر دروازہ ہے تو چار
دیواری نہیں اور اگر چار دیواری ہے تو پھر باتھ اور لیٹرین نہیں ان ناسوروں
کے گھروں کی طرح نہ سہی ان تمام سہولیات سے آ راستہ تو ہوتے لیکن افسوس کہ
ہماری یہ تمام خواہشات بس ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی ہیں ارے ہم تو
وہ بد نصیب افراد ہیں جو اپنی جواں سالہ بیٹیوں کی بر وقت شادیاں کرنے سے
بھی قاصر ہیں انہوں نے مذید کہا کہ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم جیسے لاتعداد افراد جو ہمیشہ سابقہ حکومتوں کے سامنے
کٹ پتلی بن کر ناچتے رہے تھے کے جھوٹے وعدوں سے دلبر داشتہ ہو کر اور
بالخصوص یہ سوچ کر عمران خان اور اُس کے دیگر تمام نامزد امیدواروں کو اس
قدر کامیابی سے ہمکنار کروایا کہ عمران خان وزیر اعظم جبکہ باقی ماندہ
امیدوار صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں سر براہ بن کر بیٹھے ہیں جن کے ماتحت
آج تمام ادارے کام کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے مسیحا بن کر ہماری تمام سابقہ
خواہشات کا احترام کرے گے لیکن افسوس کہ ہم آج روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی
کی وجہ سے دو وقت کی روٹی سے بھی قاصر ہو کر رہ گئے ہیں چونکہ مو جودہ
حکومت کے دور اقتدار میں سبز مرچ تین سو روپے کلو پیاز سو روپے کلو مولیاں
سو روپے کلو گو بھی سو روپے کلو مٹر تین سو روپے کلو آ لو سو روپے کلو بڑا
گو شت پانچ سو روپے کلو برائلر گوشت تین سو روپے تک فروخت ہو رہا ہے ایسی
صورت میں ہم جیسے افراد جن کا دفتری آئے روز خرچ دفتر آنے جانے کا ایک سو
روپے دھوبی وغیرہ کا خرچ ایک سو روپے دوپہر کو حلیم چاول اور چائے وغیرہ پر
ایک سو روپے خرچ آ جاتا ہے دفتری اوقات میں مجموعی طور پر تین سو روپے خرچ
کر دینے کے بعد ہمارے پاس صرف تین سو روپے تنخواہ کے بچتے ہیں اُس سے ہم
اپنی بچیوں کی شادیاں کیسے کریں ہم اپنے بیمار و لاغر والدین کا علاج
معالجہ کیسے کریں اپنے معصوم بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کیسے کریں
ہم اپنا گھر کیسے بنوائیں ہم اپنا اور اپنے اہلخانہ کو دو وقت کی روٹی کیسے
میسر کریں عمران خان صاحب آپ اور آپ کی پوری کابینہ ہمیں جواب دیں کہ ہم
پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے افراد اپنی بسرواوقات کیسے
عزت و آ برو کے ساتھ کیسے کریں اگر آج آپ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف آ
صف علی زرداری مولانا فضل الرحمن وغیرہ وغیرہ کو گرفتار کر کے پھانسی پر
لٹکا دیتے ہو یا انھیں دریا برد کر دیتے ہو یا پھر انھیں باعزت طور پر اکیس
توپوں کی سلامی دیکر چھوڑ دیتے ہو تو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں اگر آپ
امریکہ جاتے ہیں بر طانیہ چین اور سعودی عرب وغیرہ جاتے ہیں اس سے بھی ہمیں
کوئی سروکار نہیں اگر آپ نے اور آپ کی کا بینہ نے ایک سال سے زائد عرصہ گزر
جانے کے باوجود آج تک انگریزوں کے بنائے ہوئے آ سودہ قانون کو بدل نہیں سکے
کہ جس کی وجہ سے لا قانو نیت کا ننگا رقص کر نے والے قومی لٹیرے و دیگر
بااثر قانون شکن افراد سزا سے بچ جاتے ہیں ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں
ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ آج تک اس ملک میں کسی بھی چیف سیکرٹری
و دیگر سیکٹریوں کے علاوہ کمشنرز ڈپٹی کمشنرز کے علاوہ آئی جھی پولیس ڈی
آئی جھی پولیس اور ڈی پی اوز و دیگر ارباب و بااختیار کے خلاف کرپشن کا
کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا حالانکہ یہ دنیا جانتی ہے کہ کرپشن اوپر سے شروع
ہوتی ہے نیچے سے نہیں ہاں البتہ اگر کرپشن کا کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو وہ
ہے پٹواری نکہ تھانیدار کلرک وغیرہ پر لیکن وہ بھی کچھ عرصہ معطل رہنے کے
بعد اپنے کرپٹ ترین اعلی افسران جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر ہڑپ کر
رہے ہیں کی سر پرستی میں بحال ہو کر بڑے دھڑلے سے لوٹ مار ظلم و ستم اور
ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتے ہیں جس کا واضح
ثبوت بلدیہ جھنگ کا فنانس آ فیسر محمد رفیق وٹو ہے جو اپنے آپ کو ڈپٹی
کمشنر جھنگ محمد طاہر وٹو کا قریبی عزیز بتاتا ہے بغیر رشوت کے کسی سرکاری
و غیر سر کاری فائل پر دستخط کرنا گناہ کبیرہ سمجھتا ہے حالانکہ مذکورہ آ
فیسر کے کالے کرتوتوں کی اطلاع خفیہ ادارے بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار
کو دے چکے ہیں اس کے باوجود مذکورہ آ فیسر اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگاؤ
اور مال کماؤ کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے بہرحال
ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ ٹریفک پولیس جھنگ کا عملہ جس میں اے
ایس آئی افتخار وغیرہ موڑ ملہوآ نہ اٹھارہ ہزاری اور گڑھ موڑ پر کئی ماہ سے
لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جبکہ ڈی ایس پی ٹریفک پولیس جھنگ اصغر
گجر نجانے کس مصلحت کے تحت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل
ہے حالانکہ مذکورہ آ فیسر نمازی ہو نے کے ساتھ ساتھ امام مسجد کا کردار بھی
ادا کرنے میں مصروف عمل ہے تو یہاں ہمیں حضرت علی علیہ السلام کا فر مان
یاد آ گیا آپ فرماتے ہیں کہ حرام کی کمائی کھانے والا شخص خواہ وہ جتنا بھی
عبادت گزار کیوں نہ ہو اُس کی عبادات ایسے ضائع ہو جائے گی کہ جیسے ابلیس
کی ہوئی تھی آ خر میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران
خان اور اُس کی پوری کابینہ سے التجا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ نے قومی
لٹیروں بااثر قانون شکن عناصر ذخیرہ اندوزوں مذہبی و لسانی فسادات کا
مظاہرہ کرنے والے مذہبی و سیاسی افراد کے علاوہ رشوت خور اعلی افسران جو
ہمیشہ اسودہ قانون کا فائدہ اُٹھا کر سزا سے بچ جاتے ہیں اگر اس نظام کو
بہتر کرنا ہے تو آپ کو اس آ سودہ قانون کو بدلنا ہو گا تبھی یہ ملک و قوم
ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گی
|