ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان کے علاقے ژوب کی جانب جائیں
تو 60 کلومیٹر کے فاصلے پر چٹیل میدانی علاقے درابن کے بعد درازندہ کا نیم
قبائلی علاقہ ہے۔
|
|
اس علاقے میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں مقامی لوگوں کو سمندری حیات کے
ایسے باقیات ملے ہیں جو بظاہر تو پتھر معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل یہ ایسے
جاندار ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتھر کے بن گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد کے ساتھ واقع اس خشک پہاڑی علاقے میں
50 سے زائد اقسام کے سمندری حیات کے رکاز یا فوسلز دریافت ہوئے ہیں۔
فوسلز ایسے جاندار ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ پتھر بن جاتے ہیں اور
کافی حد تک اپنی ساخت برقرار رکھتے ہیں۔
درازندہ کے قریب ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پینے کا پانی آج نایاب ہے لیکن
ماہرین کے مطابق ماضی میں اس علاقے میں سمندر تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ اب
یہاں سے سیکڑوں کلومیٹر دور چلا گیا ہے۔
اب یہاں کا بیشتر علاقہ بنجر اور بے آب و گیاہ ہے۔
کرہ ارض پر ہر وقت موسمی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
روز مرّہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیاں اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ مشاہدے
میں نہیں آتیں لیکن ہزاروں، لاکھوں سال گزرنے پر یہ اتنی نمایاں ہوجاتی ہیں
کہ متضاد تک ہوجاتی ہیں۔
اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج جو علاقے ویران اور خشک
بیابان ہیں ان میں سے کئی جگہوں پر لاکھوں سال پہلے سمندر تھے۔
حیران کن طور پر جب ہم اس پہاڑی علاقے میں گئے تو مٹی میں دھنسے ہوئے چھوٹے
چھوٹے پتھر نظر آئے۔
ان پر سے مٹی کو جھاڑا جائے تو ان کے اندر سے سیپیاں اور گھونگھے نظر آتے
ہیں اور یہ سب کچھ وہاں بہت زیادہ تعداد میں پایا جاتا ہے۔
|
|
سکول کے بچوں کو حیاتیات یا بائیولوجی کا مضمون پڑھاتے ہوئے درازندہ کے
سرکاری ہائی سکول کے استاد اطلس خان شیرانی کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا
پڑا جب بچے فوسلز کا تصور سمجھ نہیں پا رہے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اطلس خان نے بتایا کہ انھیں علم تھا کہ یہ فوسلز
مقامی پہاڑوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں، چنانچہ وہ دوسرے روز قریبی
پہاڑوں سے مختلف اقسام کے فوسلز تلاش کر کے سکول پہنچے اور بچوں کو سمجھایا
کہ فوسلز کیا ہوتے ہیں۔
اطلس خان کے مطابق لاکھوں سال قبل اس علاقے میں سمندر تھا جو موسمی تغیرات
کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور یہ سمندری حیات یہیں رہ گئی ہے۔
|
|
وہ بتاتے ہیں کہ جب ایک زندہ چیز زمین میں ایسی جگہ دب جائے جہاں شدید دباؤ
ہو مگر آکسیجن موجود نہ ہو، اور اس پر 10 ہزار سال گزر جائیں تو یہ جاندار
پتھر کی شکل میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔
اطلس خان کے مطابق انھوں نے اب تک کوئی 110 تعلیمی اور تحقیقی اداروں کو یہ
فوسلز فراہم کیے ہیں تاکہ ان پر تحقیق ہو سکے اور ان سے وہ بچوں کو فوسلز
کے بارے میں سمجھا سکیں۔
اس علاقے میں اب تک اطلس خان کو 53 اقسام کے جاندار ملے ہیں جن میں سنیل یا
گھونگھے، کیکڑے، مچھلیاں اور مچھلیوں کے انڈے ملے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس کے
مطابق یہ فوسلز کریٹاشیئس دور کے ہیں جو 14 کروڑ 50 لاکھ سال قبل شروع ہوا
اور 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے اختتام پذیر ہوا۔
اور یہ اتنے واضح ہیں کہ صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کون سے جاندار ہیں۔
انھیں بعض بڑے جانداروں کی کھوپڑیاں، ریڑھ کی ہڈیاں اور دیگر اہم باقیات
ملی ہیں۔
|
|
وادی گومل کی سائنسی اہمیت
اس بارے میں محکمہ آثارِ قدیمہ خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد
نے بی بی سی کو بتایا کہ وادی گومل جو ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے قریبی
علاقوں پر مشتمل ہے، تاریخی طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے آثاروں کے ساتھ
ساتھ زمانہ قبل از تاریخ کے فوسلز ملتے ہیں، لیکن اب تک یہاں کوئی باقاعدہ
تحقیق نہیں کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب ایک منصوبہ زیر غور ہے کہ یہاں پر باقاعدہ سائنسی
بنیادوں پر تحقیق کی جائے کیونکہ یہاں فوسلز کے علاوہ 20 لاکھ سال پہلے کے
آثار بھی مل سکتے ہیں۔
|
|
عبدالصمد خان نے بتایا کہ چونکہ گومل ویلی سطح سمندر سے زیادہ بلند نہیں ہے
اس لیے انھیں قوی امید ہے کہ یہاں سے اس وقت کے آثار مل سکتے ہیں جب انسان
غاروں میں رہتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ پشاور اور وادی سوات چونکہ سطح سمندر سے کافی بلند ہے اس
لیے یہاں کوئی زیادہ ایسے قدیم آثار نہیں ملے لیکن گومل ویلی سے انسانی
ارتقا کے آثار اور بہت قدیم فوسلز مل سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالصمد کہتے ہیں کہ لاکھوں سال پہلے یہ سمندر، پہاڑ اور دریا ایسے
نہیں تھے اور یہ صحیح ہے کہ اس علاقے میں پہلے سمندر تھا اور پہاڑ اس کے
بعد میں منظر عام پر آئے ہیں کیونکہ دریافت ہونے والے فوسلز سمندری حیات
ہیں اور لاکھوں سال میں یہ سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔
|