چرواہے کی بیماری کو کئی دن گزر
چکے تھے ،علاج کے باوجود اس کے جسم میں نکلنے والے آبلوں اور تکلیف میں
کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ اب تو اس کے جسم سے نکلنے والی بو کی وجہ اس کے
گھر والے اس کے قریب آنے سے کترانے لگے۔ چرواہا کبھی اس بندر کو برا بھلا
کہتا اور کبھی اپنے آپ کو برا بھلا کہتا کہ کاش میں وہ جنگلی پھل نہ کھاتا
تو آج میرا یہ حال نہ ہوتا۔ایک دن وہ اپنی بیماری اور گھر والوں کے رویہ سے
دل برداشتہ ہوکر گھر سے نکلا اور جنگل کی طرف چل پڑا۔
بیماری نے اسے کافی کمزور کردیا تھا اور نقاہت کی وجہ سے اسے چلنے میں کافی
دشواری ہورہی تھی۔ لیکن وہ سوچوں میں گم آہستہ آہستہ چلتا رہا ۔جب اس نے
جنگل میں سناٹا محسوس کیا تو اسے اندازہ ہو ا کہ وہ جنگل میں کافی دور تک
نکل آیا ہے۔وہ رک گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا ، سامنے درختوں کے جھنڈ میں
اس کی نظر ایک چھوٹی سی جھونپڑی پر پڑی، وہ بڑا حیران ہوا کہ اس سنسان جنگل
میں یہ کس کی جھونپڑ ی ہے اور اس میں کون رہتا ہے ۔وہ فوراََ اس جھونپڑی کی
طرف چل پڑا اور قریب جاکر اس نے آواز دی کہ کوئی ہے کافی دیر تک جب کوئی
جواب نہیں ملا تو اس نے ایک مرتبہ پھر آواز دی بھائی کوئی ہے۔ تو جھونپڑی
کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک بہت ہی ضعیف بزرگ باہر آئے اور سلام کے
بعد پوچھا بیٹا تم کون ہو اور اس خطرناک جنگل میں کیا کر رہے ہو۔
چرواہے نے ان بزرگ کو اپنے بارے بتایا کہ کن حالات سے دوچار ہو ا ہے ، اپنی
بیماری اور گھر والوں کے رویہ کی وجہ سے تنگ آکر اس جنگل میں آیا ہے۔ بزرگ
نے اس کی باتیں بغور سنیں اور کہا بیٹا ابھی تم تھکے ہوئے ہو کھانا کھا کر
آرام کر لو، انشااللہ تمہاری بیماری کا بھی علاج ہوجائے گا ۔ چرواہے نے
کھانا کھایا تھکا ہوا تو تھا ہی آرام کرنے کے لئے لیٹا تو ایسی گہری نیند
سویا کہ دوسرے دن صبح ہی اس کی آنکھ کھلی ۔ اس نے دیکھا جھونپڑی میں ضعیف
بزرگ موجود نہیں ہیں، چرواہا اٹھ کر جھونپڑی سے باہر آیا تو دیکھا کہ وہ
بزرگ ایک ہاتھ میں ایک تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں کچھ جڑی بوٹیاں پکڑے ہوئے
آرہے ہیں۔ قریب پہنچ کر بزرگ بولے بیٹا اٹھ گئے کافی گہری نیند سو رہے تھے
میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ ہاتھ منہ دھو لو پھر ناشتہ کرتے ہیں اسکے
بعد تمہارے علاج کیلئے جنگل سے یہ جڑی بوٹیا ں لے آیا ہوں انشااللہ تمہارا
مرض ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔
ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے ایک سل نما پتھر پر جڑی بوٹیاں رکھ کر
انھیں پیسنا شروع کردیا جب تمام جڑی بوٹیوں نے پس کر مرہم کی شکل اختیار ک
رلی ۔ تو ان بزرگ نے ایک نوکیلے تنکے کی مدد سے چرواہے کے جسم کے تمام
آبلوں کو پھوڑ کر، ان سے نکلنے والا بدبو دار پانی ایک پیالی میں جمع کرلیا
اور چرواہے سے کہا کہ یہ مرہم اپنے جسم پر جہاں جہاں آبلے ہیں مل لو ۔
چرواہے نے جب اس مرہم کو ملنا شروع کیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی
کیونکہ جہاں جہاں مرہم لگاتا جارہا تھا وہاں ٹھنڈک پڑتی جارہی تھی۔
جب تمام آبلوں پر مرھم لگ گیا تو بزرگ نے کہا ،تقریباََ ایک گھنٹہ بعد تم
نیم گرم پانی سے غسل کرلینا ۔میں پانی گرم کرنے کے لئے رکھ دیتا ہوں، جب تک
تم آرام کرو۔ان بزرگ نے ایک برتن میں پانی لیا اور اس میں نیم کے پتّے اور
کچھ جڑی بوٹیاں ڈال کر اسے گرم کرنے کے لئے چولھے پر رکھ دیا۔
ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد جب چرواہے نے اس نیم گرم پانی سے غسل کرنا شروع کیا
حیران رہ گیا ، اس کے جسم کے تمام آبلے ختم ہوچکے تھے اور اس کی جلد بالکل
صاف ہوگئی تھی۔اس نے مسرت کے عالم میں ان بزرگ کے ہاتھ چوم لئے ، اور کہنے
لگا کہ آپ کے ہاتھ میں تو بڑی شفاء ہے ۔بزرگ نے مسکرا کر کہا بیٹا اللہ کا
شکر ادا کرو۔ انسان کی صرف کوشش ہوتی ہے لیکن شفا دینے والی ذات اللہ ہی کی
ہے۔
چرواہے نے ان بزرگ سے پوچھا ،محترم بزرگ آپ نے میرے جسم کے آبلو ںسے نکلا
ہوا پانی پھینکنے کے بجائے پیالی میں کیوں رکھ لیا ہے اور اس پانی کیا کریں
گے۔بزرگ بولے آﺅ میں تمہیں ایک کرشمہ دکھاﺅں انھوں نے ایک چمچہ لیا اور اسے
چولھے میں دھکتے ہوئے انگاروں پر رکھ دیا جب چمچہ گرم ہو کر سرخ ہوگیا تو
انھوں نے ایک تنکے کو اس پیالی کے پانی میں ڈبو کر ایک قطرہ اس چمچے پر
ٹپکایا تو چمچے پر قطرے کا گرنا تھا کہ چمچہ سونے کا بن گیا۔جب چرواہے نے
یہ کرشمہ دیکھا تو اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا، اور وہ ان بزرگ سے بولا اے
بزرگ آپ اس پانی کا کیا کریں گے ، یہ پانی تو میرے ہی جسم سے نکلا ہے ، اس
میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دیدیں۔
بزرگ نے چرواہے کو غور سے دیکھا اور مسکرا کر بولے بیٹا لالچ مت کرو ، لالچ
بہت بری چیز ہے آﺅ میں اب میں تمہیں دوسرا کرشمہ دکھاتا ہوں انھوں نے ایک
اور چمچہ لیا اور اسے بھی آگ پر گرم کر کے چرواہے سے کہا کہ اس پر اپنا
تھوک لگاﺅ چرواہے نے جیسے ہی اس پر اپنا تھوک لگایا پہلے چمچے کی طرح یہ
چمچہ بھی سونے کا بن گیا۔ بزرگ نے کہا ”تم نے اس معصوم بندر کے ساتھ جو
نیکی کی تھی تو اس نے اس کے بدلے میں تمہیں جو بوٹی کھلائی تھی اس کی وجہ
سے تمہارے اندر یہ صفت پیدا ہوگئی ہے کہ تم جب بھی گرم لوہے یا تانبے پر
اپنا تھوک لگا دو گے تو وہ سونے کا بن جائے گا۔یہ سن کر چرواہا خوشی کے
مارے رونے لگا اور سجدہ میں گر کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگا اور کہنے لگا
اے اللہ مجھ گناہگار کو تو نے ایک نیکی کا اتنا بڑا انعام عطا فرمایا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ چروا ہا ایک دن اپنے ملک کا سب سے بڑا رئیس بن گیا اور کوئی
بھی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔
کسی نے سچ کہا ہے نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لہٰذا جب بھی نیکی کرنے کا
موقع ملے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ |