ایسے ورلڈ ریکارڈ جنہیں کوئی بھی کھلاڑی اپنے نام نہیں کرنا چاہتا!

سری لنکن بولر کاسُن رجیتھا نے حال ہی میں بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں چار اووروں میں 75 رنز دے کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔
 

image


یہ کسی بولر کو بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پڑنے والا سب سے زیادہ سکور ہے اور کاسُن راجیتھا نے اتوار کو آسٹریلیا کے خلاف بولنگ کرتے ہوئے یہ ریکارڈ باآسانی اپنے نام کیا۔

اس سے قبل ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز دینے کا عالمی ریکارڈ ترکی کے بولر توناہن توران کے پاس تھا جنھوں نے رواں برس اگست میں چیک ریپبلک کے خلاف بولنگ کرتے ہوئے اپنے مقررہ چار اووروں میں 70 رنز دیے تھے۔

کاسُن راجیتھا کے پہلے اوور کی ابتدا ایک چوکے سے ہوئی اور پہلے اوور میں مجموعی طور پر انھیں 11 رنز پڑے، تاہم اگلے تین اووروں میں آسٹریلیا کے بلے بازوں نے ان کی خوب درگت بنائی۔ رجیتھا کو دوسرے اوور میں 21، تیسرے میں 25 اور چوتھے اوور میں 18 رنز پڑے۔

راجیتھا کو سات چوکے اور چھ چھکے پڑے جبکہ انھوں نے ہر گیند پر 3.125 کی اوسط سے رنز دیے۔

یاد رہے کہ راجیتھا کو ایک اچھا بولر مانا جاتا ہے اور حال ہی میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران کھیلے گئے میچوں میں انھیں نے عمدہ بولنگ کی تھی، یہ اور بات ہے کہ اتوار کو آسٹریلیا کے خلاف ان کا دن کچھ اچھا نہیں تھا۔

کچھ ریکارڈ ایسے ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی کھلاڑی اپنے نام نہیں کرنا چاہتے تاہم ایسے ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔

آئیے ایسے ہی چند ریکارڈز پر نظر ڈالتے ہیں۔

ٹاپ انگلش لیگ میں سب سے زیادہ گول

 

image


انگلینڈ میں سنہ 1888 سے فٹبال لیگ کا انعقاد ہوتا آ رہا ہے اور اسے دنیائے فٹبال کی سب سے پرانی لیگ مانا جاتا ہے جو کہ گذشتہ 131 برسوں سے جاری ہے۔

تاہم اس لیگ کی 131 سالہ تاریخ میں ریکارڈ ساز لمحہ وہ تھا جب ساؤتھ ہیمپٹن کی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ میں لیسٹر سٹی سے نو گول سے شکست ہوئی۔ ساؤتھ ہیمپٹن کو ہوم گراؤنڈ پر ملنے والی شکست تاریخ ساز تھی۔ ساؤتھ ہیمپٹن کی ٹیم کوئی گول نہ کر پائی۔

شکست کا فرق اتنا بڑا اور نادر تھا کہ میچ رپورٹس میں 9 کے ہندسے کے آگے بریکٹ میں (نائن) لکھا گیا تاکہ پڑھنے والے یہ نا سمجھیں کہ رپورٹ لکھنے والے سے لکھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔

سنہ 1995 میں اسی پریمئیر لیگ میں مانچسٹر یونائٹڈ نے ایپسوچ کو 9-0 سے شکست دی تھی تاہم اُس مرتبہ فرق یہ تھا کہ ایپسوچ ہوم گراؤنڈ پر نہیں بلکہ اولڈ ٹریفرڈ میں کھیل رہی تھی۔

ساؤتھ ہیمپٹن کے کھلاڑی ہوم گراؤنڈ میں اپنے چاہنے والوں کے سامنے کھیل رہے تھے جن میں سے چند نے اپنا دل سخت کر کے پورا میچ دیکھا۔

اپنی ناقص کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے ساؤتھ ہیمپٹن کے کھلاڑیوں اور کوچ نے اپنے ایک دن کی تنخواہ خیراتی ادارے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹینس
ایک بھی سروس نہ جیتنے والی مس ہیوسکیمپ

 

image


ٹینس میں 6-0 سے سیٹ ہارنا بہت ہی کم دیکھنے اور سننے میں آتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب سروس ہارنے والے کے ہاتھ ہو اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب میچوں کے ڈرا میں ایک کوالیفائر کا میچ سرینا ویلمز جیسی کھلاڑی کے ساتھ ہونا قرار پائے۔

جب کوئی کھلاڑی 6-0 سے سیٹ ہارتا ہے تو اسے ’بیگل‘ کہا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ صفر کے ہندسے کی شکل بیگل بریڈ کے درمیانی حصے جیسی ہوتی ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی دو سیٹ 6-0 سے ہارتا ہے تو اسے ڈبل بیگل کہا جاتا ہے۔

تاہم سیٹ میں ہر ایک پوائنٹ ہارنے کے لیے غیر معمولی بدقسمتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر سیٹ میں کم از کم 24 پوائنٹس ہوتے ہیں۔ جب کوئی کھلاڑی ایک بھی پوائنٹ لینے میں ناکام رہے تو اسے گولڈن سیٹ کہا جاتا ہے۔

صورتحال اگر دو سیٹ میں یہی رہے تو ایسے میچ کو گولڈن میچ کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ اتنا غیر معمولی ہے کہ ٹینس کی تاریخ میں ایسا صرف دو مرتبہ ہوا ہے۔ سنہ 1910 کے خواتین مقابلوں میں اور سنہ 2015 میں دوبارہ اسی نوعیت کی شکست فاش ٹامس فابائن کو ہوئی۔

سنہ 1910 میں یہ عالمی ریکارڈ اپنے نام کرنے والی خاتون کھلاڑی کا نام مِس ہیوسکیمپ تھا۔ ان کا پہلا نام نامعلوم ہے تاہم اتنا معلوم ہے کہ وہ امریکی تھیں۔ ان کے مدِمقابل کھلاڑی کا نام ہیزل وٹمین تھا جو جنگ عظیم اول سے پہلے دنیائے ٹینس کی مشہور ترین کھلاڑی تھیں۔ انھیں امریکی ٹینس کی ’کوئن مدر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور انھوں نے چار مرتبہ یو ایس اوپن چیمپئین شپ جیتی تھی۔

مِس ہیوسکیمپ کی بدقسمتی کہ سنہ 1910 میں ہوئی واشنگٹن سٹیٹ چیمپئین شپ میں وہ ’کوئن مدر‘ کے مدِمقابل تھیں۔

بہت سست ہونے کی وجہ سے نااہل
 

image


فارمولا ون (ایف 1) کار ریس میں سنہ 1960 کی دہائی تک پرائیوٹ لوگوں کا دبدبہ تھا۔

آج تو چھوٹی سے چھوٹی ٹیم کے پاس بھی سینکڑوں ملازم ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اس زمانے میں کوئی بھی ایف 1 کار خرید کر چند لوگوں کو ساتھ لا کر کار ریسنگ کے مقابلے میں شرکت کر سکتا تھا۔

لیکن وہ زمانہ انتہائی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹکنالوجی کا بھی زمانہ تھا۔ جو کاریں ایک سیزن میں مقابلے میں ہوتی وہ دوسرے سیزن تک پرانی ہو جاتیں اور مقابلے میں شرکت کے قابل نہیں رہتیں۔

اس لیے جب کینیڈا کے ال پیز دو سال پرانی کار اے اے آر ایگل کے ساتھ اپنے آبائی شہر میں سنہ 1969 میں مقابلے میں اترے تو انھیں یہ محسوس کرنے میں دیر نہیں لگی کہ انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔

دو سال قبل اسی ریس میں انھوں نے سب سے کم درجے پر ہونے کے باوجود فنشر میں شامل تھے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب وہ 43 چکر پیچھے تھے۔ جب وہ چھ چکر پیچھے تھے تو انھیں گاڑی روکنی پڑی تھی، نئی بیٹری لگا کر پھر سے ریس شروع کرنی پڑی تھی۔

اس طرح پیز کسی بھی صورت سب سے تیز ڈرائیور نہیں تھے۔ اور ان کی خوبصورت ایگل کار سنہ 1967 میں اپنے لانچ کے بعد بھی شاذ و نادر ہی مقابلے میں اترتی تھی۔ دو سال بعد تو وہ بہت پرانی ہو چکی تھی۔

وطن پرستی کے جذبے سے معمور پیز نہ صرف لوگوں کو خود سے آگے نہیں نکلنا دینے چاہتے تھے بلکہ انھوں نے سرگرمی کے ساتھ دوسری کاروں کے راستے روکنے شروع کر دیے۔

لیکن جب وہ تازہ تازہ ورلڈ چیمپیئن کا تاج پہنے والے جیکی سٹیوارٹ کو خطرناک ڈھنگ سے روکنے کے لیے بڑھے تو سٹیوارٹ کی ٹیم کے مالک کین ٹائرل منتظمین کے پاس پہنچے۔

اس کے تھوڑی دیر بعد ایک سیاہ پرچم بلند ہوا اور اس طرح پیز پہلے اور اب تک کے واحد شخص بنے جنھیں مقابلے سے ان کی سست رفتاری کے لیے نکال دیا گیا۔

گولف کا پہلا اوبی پرندہ: ٹومی آرمر
 

image


گولف کی اصطلاحات میں پرندوں اور ان کی پرواز کے متعلق الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔ برڈیز اور ایگلز جیسی اصطلاحات عام سکور سے کم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور اصطلاح آرکی اوپرٹریکس archaeopteryx ہے ، جو اصل میں ڈائناسورز کے دور کے ایک پرندے کا نام ہے۔

یہ اصطلاح سنگل ہول کے 15 یا اس سے زیادہ کے سکور کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

حیرت انگیز طور پر پہلا واقعہ 1927 میں ریکارڈ کیا گیا جو کہ کسی ناتجربہ کار یا حیرت زدہ گولفر کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ امریکی اوپن کے اس وقت کے چیمپیئن ٹامی آرمر کے ساتھ پیش آیا اور وہ بھی امریکن اوپن جیتنے کے صرف ایک ہفتے بعد۔

اسی سال پنسلوانیہ میں منعقد ہونے والے شانی اوپن میں آرمر نے پہلی دس بال کو دائرے کے باہر مار دیا۔ چونکہ دائرے سے باہر مارنے پر ایک سٹروک کی پنلٹی بھی ہوتی ہے اس لیے انھیں دائرے کے اندر مارنے کے لیے 20 سٹروک لینے پڑے جو کہ 15 سٹروک سے زیادہ ہوتاہے۔ اس طرح انھیں کھیل میں آگے بڑھنے کے لیے کل 11 ٹی سٹروک لینے پڑے۔

اس کے بعد انھوں نے اچھا کھیلنا شروع کیا اور صرف دو شاٹ میں انھوں نے پہلا ہول پار کر لیا۔ اگر وہ پہلے سٹروک میں دائرے کے اندر ہوتے تو انھیں ایگل یعنی عقاب ملا ہوتا۔

شرمندگی کے سبب ضابطے میں تبدیلی: ایڈی 'دی ایگل' ایڈوارڈس
 

image

سنہ 1988 کے اولمپکس کو زیادہ تر دو بڑی ناکامیوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور اب ان دنوں پر فلم بن چکی ہے۔

ایک جیمائکا کی پھسلنے والی ٹیم تھی۔ ان کی مہم کو 'کول رننگ' نامی فلم میں پیش کیا گيا ہے۔

دوسرے پلاسٹر کرنے والے شخص تھے جو فن لینڈ کے ذہنی امراض کے ہسپتال میں کام کر رہے تھے اور انھیں پتہ چلا کہ انھیں اولمپکس کے لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ وہ برطانیہ کے واحد سکی جمپر ہیں۔

ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا اور ان کی دور کی نظر بھی کمزور تھی وہ موٹے چشمے پہنتے تھے جس پر اونچائی پر بھاپ آ جاتی تھی۔ وہ دوسرے مقابلہ کرنے والوں سے نو کلو گرام زیادہ وزنی بھی تھے لیکن مائیکل ایڈوارڈ نے بچپن سے ہی اولمپکس میں شرکت کا خواب دیکھ رکھا تھا۔

انھیں پتہ چلا کہ برطانیہ کی طرف سے معمولی سی جمپ سے بھی وہ کوالیفائی ہو سکتے تھے وہ اس کے لیے گئے۔

وہ مقابلے میں سب سے کم فاصلہ طے کر پائے لیکن ان کے عجیب و غریب انداز اور ان کے جوش و جذبے نے 1988 میں کیلگیری میں بہت سے لوگوں کا دل جیت لیا۔ انھیں ایڈی دی ایگل کہا گیا جو کہ ان کی زندگی پر مبنی ٹیرون ایجرٹن کی فلم کا عنوان بنا۔

یہاں تک انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے اختتامی تقریب کے دوران ان کا ذکر بھی کیا گیا۔

لیکن ان کا ریکارڈ اتنا خراب تھا کہ اس کے بعد ایک معیار برقرار رکھنے کے لیے مقابلہ میں شرکت کرنے والوں کے لیے اصول کو بدلا گیا۔

Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: