میڈیا پر ایک لیچرار افضل محمود کی سسٹم سے مایوس ہو کر
خودکشی کی خبر نے ہمارے معاشرے کی بے حسی پر بہت سارے سوالات اٹھائے۔ سوشل
میڈیا پہ سپیشل بچوں کی ایک وڈیو اکثر شیئر کی جاتی ہے کہ کس طرح ایک ریس
کے دوران جب ان کا ساتھی گر جاتا ہے تو وہ سب رک کر اسے اٹھاتے ہیں اور
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اکھٹے بھاگتے ہیں۔ میں یہ وڈیو دیکھ کر اکثر سوچتی
ہوں ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ کسی کو مشکل میں حوصلہ دینے کا سوچتے ہیں؟
اگر کسی نے یہ سوچا ہوتا کہ افضل محمود کس ذہنی اذیت سے گزر رہا ہے اوراسے
حوصلہ دیا ہوتا تو شاید افضل محمود آج زندہ ہوتا۔ حوصلہ دینا تو درکنار،
افضل محمود کو طعنہ و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا
شکار ہو کر اس نے انتہائی قدم اٹھا لیا۔اگر ہمارے معاشرے میں احساس جاگ
جائے تو بہت سارے افضل مرنے سے بچ جائیں گے۔
حساس لوگوں کا اس بے حس معاشرے میں پیدا ہونا ایک المیہ ہے۔افضل جیسے حساس
لوگ مر جاتے ہیں تو سب لوگوں کا دامن صاف ہوتا ہے کیونکہ ان کا قتل کا کوئی
ثبوت نہیں ہوتا۔ بلکہ حساسیت ان کا جرم ہوتا ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اب اگر سسٹم کی بات کریں تو دفتروں میں کام کو لٹکاناایک عام بات ہیں۔ اپنے
جائز کام کے لیے بھی انسان کو دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ انکوائری کے بعد افضل
محمود کر بریت کا لیٹر دینا اس کا حق تھا جس کے لیے بھی اسے درخواستیں کرنی
پڑیں۔افضل محمود اکیلا نہیں تھا اس معاشرے میں نہ جانے کتنے اور انصاف کی
خاطر رلتے پھرتے ہیں۔ کیا افضل محمود کی موت ان لوگوں کا ضمیر جھنجھوڑنے
میں کامیاب ہوئی جن کی بے حسی اس سسٹم کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ میرا
خیال ہے جس دن یہ رویے تبدیل ہوں گے تبدیلی اسی دن آئے گی ورنہ عوام تبدیلی
کے نعروں سے لیڈروں کے ہاتھوں استعمال ہی ہوتے رہیں گے اور تبدیلی ایک خواب
ہی رہے گا۔
|