یہی کوئی 25سال پہلے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک
اخبارمیری زیر ِ ادارت شائع ہو رہا تھا ایک صاحب سرپرجناح کیپ سجائے دفتر
آواردہوئے دیکھنے میں محمدبخش صدا بڑے وضع دار اور نستعلیق قسم کی شخصیت
لگے انہوں نے بتایامیں بانی ٔ پاکستان قائد ِ اعظمؒکی حفاظت پر مامورنیشنل
گارڈکاسالارہ چکاہوں مجھے کئی باربانی ٔ پاکستان سے ملاقات کا اعزاز حاصل
ہے یہ کہتے ہوئے ان کا سینہ فخرسے چوڑا ہوگیا پھروہ اکثر تشریف لانے لگے
ملکی حالات،تحریک ِ پاکستان کے واقعات، قائد ِ اعظمؒکی باتیں اور عام آدمی
کو درپیش مسائل پرجوش اندازمیں ان کی گفتگوکامحور تھے کبھی کبھاراپنے لکھے
ہوئے اشعاربھی سنا دیتے بلاشبہ ایسے لوگوں کی قربانیوں کے طفیل پاکستان
معرض ِ وجودمیں آیا تھا۔محمدبخش صدا ایک روز میرے پاس آئے بڑے پرجوش تھے
آتے ہوئے کہنے لگے صاحب !میرے ایک جاننے والے نے میری فرمائش پر ایک سیاسی
سماجی شخصیت کے انٹرویوکا ٹائم لیاہے وہ کاروباری بھی ہیں کچھ گپ شپ بھی
ہوجائے گی اور اخبارکیلئے ہوسکتاہے ان کی کمپنی کا اشتہاربھی مل جائے۔میں
نے مصروفیات کا بہانہ بنایا لیکن وہ سرہوگئے کہ میں وعدہ کرچکاہوں آپ کو
جاناہی پڑے گا وہ کل شام 5بجے اپنی گاڑی بھیج د یں گے بس شادمان تک جاناہے
میں نے بادل ِ نخواستہ ہاں کرلی اگلے روز حسب ِ پروگرام ہم دونوں اپنے فوٹو
گرافرکو ساتھ لئے منزل ِ مقصودپر پہنچ گئے میرے پاس ایک چھوٹا ساٹیپ ریکارڈ
موجود تھا کہ وقتی طورپر لکھنے سے جا چھوٹ جائے بعدمیں سہولت کے ساتھ
انٹرویو تحریر کرلیں گے ہم تھوڑی دیر بعدان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے حالات
ِ حاضرہ پر سیرحاصل گفتگو کررہے تھے باتیں کرتے کرتے رات کافی بھیگ گئی وہ
صاحب کافی دلچسپ تھے آخرمیں وہ ہمیں اپنے بیڈ روم میں لے گئے وہاں نادر
پوٹریٹ، حنوط جانور اور نہ جانے کیا کیا تھاجس کی تصاویر بڑے مزے سے
بنارہاتھا اچانک محمدبخش صدا نے میرے کندھے کو جنجھوڑکر کہا بس چلیں اس کے
اہجے میں بڑاکرب تھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا اس کی آنکھوں میں
آنسو تھے جسے وہ روکنے کی بڑی کوشش کررہاتھا میں نے سوچا نہ جانے کیا
افتادآن پڑی ہے کہ محمدبخش صدا کی یہ حالت ہوگئی ہے میں نے پوچھا طبیعت تو
ٹھیک ہے کیاہوا آپ کو؟ ۔۔اس نے ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے ایک طرف اشارہ کیا
میں نے دیکھا کہ وہاں بافریم دو تصاویر لگی ہوئیں تھیں ایک فریم میں قائد ِ
اعظمؒ کی تصویر دوسرے میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ کی۔۔ میں نے
سوچا ان دونوں تصاویرکا بظاہرتو کوئی آپس میں تال میل نہیں ہے دونوں
رہنماؤں کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف،نظریاتی اعتبارسے ایک پاکستان کو
بنانے والا دوسراقیام ِپاکستان کا کٹر مخالف۔۔ دونوں کی تصاویرایک ساتھ
لگانے کا مطلب آگ اور پانی کو اکٹھاکرنے کے مترادف ہے ۔۔میں ابھی اس ماحول
کے سحر سے باہرنہیں نکلا تھا کہ محمدبخش صدا پاؤں پٹختے یہ جا وہ جا میں
بھی ان کے پیچھے لپکا میزبان حیرت سے ہم دونوں کے سوالیہ اندازسے دیکھا
رہاتھا پھروہ گیٹ کھول کر باہرنکل گیا۔۔۔میں نے لپک کر محمدبخش صدا کو
کندھے سے پکڑا دیکھا وہ رورہے تھے ہچکیوں میں وہ بولے یہ قیامت کی نشانیاں
ہیں دیکھا آپ نے اس شخص نے کتنا بڑا ظلم کیاہے بانی اور مخالف کو ایک ہی صف
میں کھڑاکردیاہے یار ان کوذرابھی تمیز نہیں پاکستان کو بنانے والے اور
محالفت کرنے والے اس کی نظر میں ایک کیسے ہوگئے؟ ۔۔۔میں ابھی کوئی جواب نہ
دے پایا تھا کہ اتنے میں میزبان بھی باہر آگئے محمدبخش صدا انہیں دیکھتے ہی
گویا پھٹ پڑے صاحب آپ نے بہت بڑا گناہ کیاہے میں آپ کو معاف نہیں کرسکتا
یقینا آپ نہیں جانتے ہم نے پاکستان کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں میں تو اپنا
سب کچھ لٹاکر اس وطن میں آیاہوں آپ کی نظرمیں قائذ ِ اعظمؒ اور ان کے
کٹرمخالف ایک کیسے ہوگئے نہیں صاحب نہیں آپ کو لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں
کااحساس نہیں یہ کہتے ہوئے وہ پیدل ہی ایک طرف چل دئیے۔۔۔۔ یہ واقعہ بڑے
عرصہ بعد آج یادآیاہے جب یہ خبر پڑھی آزادی مارچ کے سلسلہ میں مسلم لیگی
ارکان ِ اسمبلی اور کارکن مولانا فضل الرحمن کااستقبال کرینگے یقینا یہ
قیامت کی نشانیاں ہیں کہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطرقائد ِ اعظمؒکے وارث
کہلوانے والے اس حدتک گرسکتے ہیں ایک فاضل کالم نگار نے بجاطورپر لکھا کہ
’’آزادی مارچ کا جو بھی منطقی انجام ہوہمیں اسی سے کوئی غرض نہیں لیکن ایک
بات طے ہے کہ مولانا فضل الرحمن دنیا کی توجہ کشمیرکازسے ہٹانے میں کامیاب
ہوگئے ہیں باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ان کے نظریہ کی بہت بڑی
کامیابی ہے یقینا آج ان کے والد ِ مرحوم مفتی محمودکی روح بہت خوش ہوگی
جنہوں نے اسمبلی فلورپرانتہائی ڈھٹائی سے کہاتھا’’ خدکا شکرہے ہم پاکستان
بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے‘‘خاص طورپرجس تاریخ کو بھارت کا سرینگرپر
قبضہ ہوا اسی روز آزادی مارچ شروع کرنے کا مطلب ہے کہ دال میں ضرور
کالاکالاہے‘‘ جب جب مسلم لیگی کارکن پاکستان کے مخالفین کا استقبال کریں گے
عالم ارواح میں یقینا حضرت قائد ِ اعظمؒکی روح مضطرب ہوگی کہ جن لوگوں نے
پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا،کبھی جشن ِ آزادی نہیں منایا،علامہ
اقبالؒ اورقائد ِ اعظمؒکے مزارات پرحاضری نہیں دی مسلم لیگی کارکنوں کی
جانب سے ان کا استقبال کرنا قیامت کی نشانیوں سے کم نہیں یہ بھی قیامت سے
کم نہیں کہ آج مسلم لیگی ہونے کے دعویدار نظریاتی مسلم لیگی نہیں حالات کی
پیداوارہیں تحریک ِ استقلال سے سیاست کا آغازکرنے والوں سے یہی توقعات کی
جاسکتی ہے کہ وہ قائد ِ اعظمؒکے سیاسی مخالفین کے حق میں نعرے مارتے پھریں۔
|