پروفیسرحاجی محمد ریاض:درد تھی منزل ِ مقصود مگر چلتے رہے

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
گردشِ ایام بائیس اکتوبر 2019کو الم نصیبوں کے لیے اشکوں ،آہوں اور سسکیوں کی اندوہ ناک خبر لائی ۔ جھنگ شہر میں مقیم وطن عزیز کے ممتاز ماہر ِ تعلیم ،ماہر لسانیات ،نقاد،محقق ، مورخ ،دانش ور اور ماہر علم بشریات پروفیسر حاجی محمد ریاض کی دائمی مفارقت کی اطلاع مِلی۔ اس سانحہ کے بعدشجرِ وفا کے ثمر کے لمس کے ذائقے مُرجھانے لگے ۔گزشتہ سات عشروں کی یادوں کی وہ خوشبو جو قریۂ جاں کو معطر کر رہی تھی رِزق ِ خاک ہو گئی ۔ اجل کے تند و تیزبگولوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ضو فشاں چراغ بجھا دئیے اور احساسِ زیاں سے نڈھال دنیا بے بسی کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ افقِ علم و ادب پر ضوفشاں تابندہ ستاروں کے غروب ہونے کے بعدتشنگانِ ادب کے سہانے خواب ٹُو ٹ گئے اور سب رنگ بکھر گئے ۔اُردو زبان و ادب کے اس یگانۂ روزگار فاضل نے اپنی زندگی تدریس ِ ادب کے لیے وقف کر ر کھی تھی ۔ زندگی کا سفر آبلہ پا مسافروں کو ایسے ناقابلِ اندمال زخم دے جاتاہے جن کا مرہم وقت کی دسترس سے باہر ہے ۔ اجل کے بے رحم ہاتھ جب گلشنِ ہستی سے کسی عنبر فشاں پھول کو توڑکر خاک میں ملا دیتے ہیں تویاس و ہراس کی سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں میں آرزوئیں دم توڑ دیتی ہیں،تمنائیں منھ موڑ لیتی ہیں اور اُمنگیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں میں یہاں جو صدمے ہو گئے ہیں انھیں صدیوں تک زمانہ یاد رکھے گا۔ پُرانے آشنا چہروں اور رفتگاں کی یاد میں رونے والوں کے نئے قافلے آ جائیں گے ۔انسانی زندگی تو ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریر ہے جسے سمندر کی طوفانی لہریں مٹا کر پانی کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ اپنی نجی محفلوں میں پروفیسر حاجی محمد ریاض جھنگ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ قحط الرجال کے نتیجے میں یہ شہربھی عجیب ہو رہا ہے جو اپنے طرز عمل اور معاشرت کے اعتبارسے رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔ رفتگاں کے صدموں کے نتیجے میں یہ شہر اب ایسے ویرانوں اور کھنڈرات سے معمور دکھائی دیتا ہے جہاں لُٹی محفلوں کی دُھول اُڑ ر ہی ہے ۔ اپنے دِل میں آباد ہونے کی آرزو لیے سرابوں کے عذابوں میں بھٹکنے والے درماندہ رہرو آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادادیکھنے کے بعدفلک سے یہی کہتے ہیں کہ شاید ہماری تعمیر میں بھی خرابی کی ایک صورت مضمر ہے ۔گردشِ افلاک اگر ہمیں آباد کرنے پر ہی مصر ہو تو ہمیں ویران کر دیا جائے ۔ گلزار ہست و بُود میں نسیم سحر اور صبا کے جھونکے چلتے رہیں گے ہم ان سے کیا شکوہ کریں ۔ عبرت سرائے دہر میں یہ چمن سو بارمہکے گا او رسیکڑوں بار بہار آئے گی مگر یہ سوچ کر دل بوجھل ہو جاتاہے کہ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے اُن کے آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے بعد دل کی دنیا سُونی سُونی رہے گی ۔یہ چاند چہرے جب خاک میں پنہاں ہو جاتے ہیں تو ان کے بعد پس ماندگان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتاہے مگر اس جان لیوا صدمے کے نتیجے میں ان کا پورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ اب در بہ در اور خاک بہ سر پھرنے والے پس ماندگان کی خاک کو غور سے دیکھو یہاں تو کچھ بھی نہیں بچا۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا در اصل اپنے دلوں کو ان کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کا ایک وسیلہ بن جاتاہے ۔
اب ہواؤں سے کیا گِلہ کیجیے
راکھ ہے در بہ در تو ہو گی ہی
پاس رخت ِ سفر نہیں نہ سہی ٰٓٓ ساتھ گردِ سفر تو ہو گی ہی ( مغنی تبسم)
پروفیسرحاجی محمد ریاض کی حیات کا افسانہ پڑھنے والوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی زندگی میں کئی سخت مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں سے یہ قلبی اور روحانی روداد پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ علم بشریات میں دلچسپی رکھنے والے دانش وروں کو گمان گزرتا ہے کہ اس با کمال افسانہ نگار کی متاعِ زیست پر محیط افسانے کاپلاٹ ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے ۔اس کا اہم سبب یہ ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات ،مشاہدات ،تجربات اور تجزیات کو ان کے دل میں موجزن خیالات کی لہروں نے ڈھانپ لیاہے ۔اس یگانۂ روزگار فاضل سے مِل کر یہ محسوس ہوتاکہ ان کے فکر و خیال کے متعدد پنہاں پہلولاشعور اور تحت الشعور کے خزینوں کے گہر ہائے آب دار ہیں ۔ان کی فکر پرور اور خیال افروز باتیں روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہوتی تھیں جو پتھروں اور چٹانوں کو بھی موم کر دیتی تھیں۔
جھنگ میں مختلف محکموں کے ریٹائر ڈسرکاری ملازمین ماہانہ پنشن وصول کرنے کی غرض سے ہر ماہ کے پہلے عشرے میں مقامی قومی بنک میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض سے میری ملاقات 2۔ اکتوبر 2019 کو جھنگ کے ایک قومی بنک میں ہوئی ۔وہ حسب معمول ماہانہ پنشن وصول کرنے کے لیے یہاں پہنچے تھے ۔ وہ قدرے کم زور دکھائی دے رہے تھے مگر پورے اعتماد کے ساتھ باتیں کر رہے تھے ۔انھوں نے سفید رنگ کا دیسی کرتا اورسفید شلوار پہن رکھی تھی ۔سفید لباس ان کی وجیہہ شخصیت اور دراز قد پر خوب سجتا تھا۔ انھوں نے عصا تھام رکھا تھا اور بڑی احتیاط سے چل رہے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں پہلی مرتبہ عصا دیکھ کر سجاد حسین نے حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے کہا:
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اس موقع پر جن دیرینہ رفقا اور احباب نے انھیں خو ش آمدیدکہا ان میں غلام قاسم خان،ابو ذر غفاری،ظفر خا ن، خادم حسین ،سجاد حسین،طارق احمد،محمد یامین ساحر اور اشرف خان شامل تھے ۔چندروز بعد مجھے اپنے ایک عزیز کی زبانی معلوم ہوا کہ دل کی تکلیف کے باعث پروفیسرحاجی محمد ریاض کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ۔ میں جھنگ شہر کے محلہ ’’پرانا باغ ‘‘میں واقع ان کی نئی رہائش گاہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ علاج کے لیے انھیں نشتر ہسپتال ملتان پہنچایا گیا ہے ۔پروفیسر غلام قاسم خان اپنے چند احباب کے ہمراہ اپنے دیرینہ رفیق اور محرم راز دوست کی عیادت کے لیے ملتان پہنچے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض کو مضمحل دیکھ کر سب لوگوں نے دِل تھام لیا ۔ زندگی کا سفر بھی عجیب سفر ہے جو ہر رہرو کے دِلِ نا صبور کوصعوبتوں کے سفر کا شعور اور کرب تنہائی کا سرورعطا کرتا ہے ۔دائمی مفارقت دینے والوں کے پسماندگان کو مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور ان کی یادوں کے زخم پرمرہم رکھنے کی خاطرادیب تعزیتی مضامین زیبِِ قرطاس کرتے رہتے ہیں ۔یہ مضامین خلوص و مروّت سے مزین ایسی ردائے حرف کے مانند ہیں جو الم نصیب پس ماندگان کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی ایک سعی ہے ۔ اس جانب کم کم توجہ دی جاتی ہے کہ جب آزمائش و ابتلا کی ژالہ باری اور غم و اندوہ کی موسلا دھار بارشیں خارزار ِ ہستی کے آبلہ پامسافروں کی روح کو زخم زخم اور دلوں کو کِرچی کِرچی کر دیتیں تو ان پر کیا گزرتی تھی ۔ اس موقع پر اپنے احباب کے جذبات حزیں کو محسوس کر تے ہوئے پروفیسرحاجی محمد ریا ض نے لاشعور کی عمیق گہرائیوں کی غواصی کر کے انسانی زندگی کے بارے میں یہ شعر پڑھا تو وہاں موجود سب احباب کی آ نکھیں پُر نم ہو گئیں :
زندگی میں کبھی اِک پل ہی سہی غور کرو
ختم ہو جاتا ہے جینے کا تماشا کیسے ( شہر یار )
پروفیسرحاجی محمد ریاض نے جھنگ شہر کے ثانوی مدرسہ سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبر لے کر پاس کیا ۔اس کے بعد انھوں نے ڈسپنسر کورس پاس کیا ۔ شہر بھر کے ناداروں ،دردمندوں ،بیماروں اور ضعیفوں کو بلا معاوضہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی غرض سے انھوں نے ایک فری ڈسپنسری بنائی ۔ گزشتہ صدی کے ستر کے عشرے میں ٹلا عطائی نے جھنگ شہرکے سادہ لوح اورتوہم پرست لوگوں کی صحت سے کھیل کر بہت دولت اکٹھی کر لی ۔ یہ بونا اشتہاروں اور تعریفی رقعات کی بیساکھیوں سے باون گزا بن بیٹھا۔اس نے بے پر کی اُڑا رکھی تھی کہ اس کے پاس ہر درد کی دوا اور مرض کی شفا کے مجرب خاندانی نسخے موجود ہیں ۔ پیچیدہ اور مخصوصہ امراض کے علاج کے پوشیدہ طریقے اور خفیہ نسخے اس کی پہچان بن گئے ۔ رفتہ رفتہ جہالت اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ ڈاک کے وی ۔پی پارسل کے ذریعے ٹلا عطائی سے ادویات منگواتے اور نہ صرف زر و مال بل کہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ۔ سادہ لوح لوگوں کے جانی و مالی نقصان پر ٹلا عطائی ٹس سے مس نہ ہوتا اور ہنہناتا ہوا اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی فکر کرتا۔ٹلاعطائی کی لُوٹ مار اور ٹھگی کے بارے میں عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کے سلسلے میں جن اطبانے جد و جہد کی ان میں پروفیسرحاجی محمد ریاض کا نام بھی شامل ہے ۔وہ توہم پرست جہلا کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کی جہل دوستی کے باعث عطائیت کا زہر معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر گیاہے ۔ انھوں نے کچھ عرصہ اپنی فری ڈسپنسری میں خدمات انجام دیں جہاں وہ جزیرۂ جہلا میں گھرے اہلِ درد کو بتاتے کہ اگر کسی شام ملک بھر کے عطائی پا بندِ سلاسل کر دئیے جائیں تو پھر بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ اگلی صبح متعدد نئے عطائی برسات کے مینڈکوں کے مانند ٹراتے ہوئے ان کی جگہ لے لیں گے ۔ انھوں نے مفت طبی خدمات کے ساتھ ساتھ تعلیمی استعداد میں اضافے پر بھی توجہ مرکوز رکھی ۔میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے صرف چھے سال میں ایم ۔اے اردو کیا۔اس کے بعد وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر اردو منتخب ہو گئے ۔انھوں نے پنجاب کے مختلف کالجز میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔سال دو ہزار نو(2009) میں وہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعدسرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعدان کا وقت زیادہ تر عبادت میں گزرتا تھا۔ اپنی نو عیت کے اعتبار سے ان کی بیش ترمصروفیات مابعد الطبیعات اور پیراسائیکالوجی سے متعلق رہیں ۔ وہ اس حقیقت سے متفق تھے کہ کارِ جہاں بہت دراز ہے جس میں خارجی کیفیات تاریخی نو عیت کی حامل ہیں ۔جہاں تک افراد کی داخلی کیفات کا تعلق ہے ان میں تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل کا کوئی دخل نہیں ۔ ان کے قریبی دوست ان کے بارے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ انھوں نے زہد و ریاضت کی بنا پر اقلیم معرفت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔اپنے نصف صدی سے زائد کے تجربات کی بنا پر انھوں نے ماضی ،حال اور مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کو ایک ایسی نہج عطا کی جو ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔
پروفیسرحاجی محمد ریاض کو قدرت کاملہ نے ایک مضبوط و مستحکم شخصیت سے نواز اتھا۔وہ سب کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور مقدور بھر ان کی اعانت کرتے تھے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض نے زندگی اور موت کے موضوع پراپنے عالمانہ خیالات سے فکر و نظر کو مہمیز کیا ۔و ہ گلو گیر لہجے میں یہ بات کہتے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین ، روحی بانو،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، افضل احسن، محمد اکرم،محمد یوسف اورشبیر راناکو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔ ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کی وفات پر میرے تعزیتی کلمات سُن کر پروفیسرحاجی محمد ریاض سمیت سب حاضرین زار و قطار ر ونے لگے ۔ اپنے دیرینہ رفقائے کار احمد بخش ناصر ،شفیع ہمدم ،دیوان احمد الیاس نصیب،شفیع بلوچ،اسحاق مظہر ،ارشد علی خان ،فیض محمد خان ،گدا حسین افضل اور سجاد حسین کی رحلت پر وہ بہت دل گرفتہ رہتے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر زخم کے اندمال کی صورت پید اہو جاتی ہے مگر دائمی مفارقت دینے والوں کی مثال پس ماندگان کے جسم کے ایک عضو کے کٹ جانے کے مترادف ہے۔اس کا زخم تو بھر جاتا ہے مگر نقصان کی تلافی بعید از قیاس ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ خفتگانِ خاک کبھی فنانہیں ہوتے بل کہ لالہ و گُل میں نمایا ں ہو کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ تو محض صورت کی تبدیلی تھی ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض کی وفات کی خبر سن سن کر ہر شخص کا دِل بیٹھ گیا کہ وہ خادم خلق جوسب الم نصیب انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھتا تھا ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ گیا۔
عملی زندگی میں پروفیسرحاجی محمد ریاض نے متعدد شعبوں میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔وہ بہ یک وقت صوفی ،مبلغ ، ماہر نفسیات ،ماہر علم نجوم ،دست شناس ، ماہر آثارقدیمہ ،قیافہ شناس ،عامل ،طبیب،سماجی کارکن،ماہر ِ تعلیم،فلسفی ،مورخ ،محقق ،نقاداور تخلیق کار تھے۔پروفیسرحاجی محمد ریاض اکثر یہ بات دہراتے کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور تمام انسان اپنی داستانِ حیات میں مہمان اداکار کی حیثیت سے مختلف کردار ادا کرنے کے لیے مختصر وقت کے لیے آتے ہیں اور اپنی باری بھر کر چلے جاتے ہیں۔ یہ دنیا تو ایک مہمان سرائے ہے جس میں کوئی بھی مہمان مستقل طور پر قیام نہیں کر سکتا ۔ اس مہمان سرائے میں مختلف مہمانوں کے قیام کے عرصے کو قابل مطالعہ بنانے کے لیے اسے رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزین کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بننے پر اصرار کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ تقدیر کا پہیہ بھی رخش ِ حیات کے مانند پیہم رواں دواں رہتا ہے۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تقدیر کا پہیہ جب خاص مدار میں اپناچکر مکمل کر لیتا ہے تو حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے۔غلاموں پر اسرار شہنشاہی کُھل جاتے ہیں ،تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابُود ہو جاتے ہیں اور کاخ امرا کے درو دیوار پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں آلام ِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے بے بس و لاچار انسانوں کے دن بھی بدل جاتے ہیں ۔پروفیسرحاجی محمد ریاضزندگی بھرمہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار ادا کرتے رہے ۔جدید دور میں تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت میں ایک واضح تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔زندگی کی اقدار و روایات پر اس تبدیلی کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض کی سنجیدہ فلسفیانہ تجزیاتی آرا کو ان کی شخصیت کاامتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔ اپنے معاصرین کی علمی و ادبی خدمات پر ان کے مدلل مضامین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔انسان دوستی اور انسان شناسی ان کے مزاج میں رچ بس گئی تھی ۔ و ہ ایک ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے اسی لیے وہ اپنے پس ماندگان کے دِلوں کی دھڑکن میں سما گئے ۔ ابد آ شنا تصورات کے علم بردار ایسے دیدہ ور طبعی موت کے سامنے سپر انداز نہیں ہو سکتے بل کہ جریدہ ٔ عالم پر اپنا دوام ثبت کر جاتے ہیں ۔وہ تلخ و تُند مسائل ،کٹھن حالات ،صبر آزما مشکلات اور ابتلا و آ زمائش کی گھڑیوں میں استقامت سے کام لیتے تھے ۔ان کا خیا ل تھا کہ تکلیف دہ حالات سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لینا بزدلی اور دوں ہمتی کی دلیل ہے ۔گلزار ہست و بُود میں حیات ِ مستعار کی مثال ہما رے لیے عبرت کا نمونہ ہے ۔ ایک بلند کردارناصح کی حیثیت سے وہ اس جانب متوجہ کرتے کہ قلزم ہستی کی منھ زور موجوں سے ستیز ہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ خوف، مایوسی ،بیزاری ،تساہل اور بے دلی سے بے یقینی اور قنوطیت جنم لیتی ہے ۔ اپنے پڑوسیوں اور جاننے والوں کی خوشی اور غم میں شریک ہونا زندگی بھر پروفیسرحاجی محمد ریاض کا معمول رہا۔ ادبی نشستوں،سماجی فعالیتوں اور مقامی تقریبات میں ان کی شرکت سے ان محفلوں کی رونق کو چا رچاند لگ جاتے ۔ ان کے احباب اکثر یہی بات کہتے تھے کہ پروفیسرحاجی محمد ریاض ایک ایسا رانجھا ہے جو سب کا سانجھا ہے ۔ان کی ہفت اختر شخصیت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے ۔
اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے
اُس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ( میرا جی )
دائمی مفارقت دینے والے تو ہماری سوچ کو سوالی کر کے اور آنکھوں کو خالی کر کے زینہ ٔ ہستی سے اُتر جاتے ہیں مگر پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمے برداشت کرنا ایک کٹھن مر حلہ ثابت ہوتاہے ۔جب محبت ایک غیر فانی جذبے کا نام ہے تو پھر ہماری محبوب ہستیاں کیسے فنا ہو سکتی ہیں ؟یہ تو سائے اور خواب کے مانند پلٹ کر اپنے وجود کا اثبات کر تی رہتی ہیں ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض کی رحلت کی خبر سن کر ہر آ نکھ اشک بار اور ہر دِل سوگوار ہے ۔ جا ں نثار اختر (1914-1976) کے یہ اشعار میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں :
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش ،روحانی کرب اورذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اسی طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا صبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں خیال و خواب ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ یادِ رفتگاں کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سُود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی
آثار قدیمہ سے پروفیسرحاجی محمد ریاض کو گہری دلچسپی تھی ۔وہ کھنڈرات کوبے ستوں عمارات اور پر تعیش محلات سے بہتر قرار دیتے تھے ۔ اساتذہ اور طلبا کے مطالعاتی دوروں کے دوران میں انھوں نے بھنبھور(سندھ) ،تخت بھائی (مردان)،قلعہ دراوڑ ( بہاول پور ) ، پنج پیر ( سرگودھا )، چوکھنڈی ( کراچی ) ،شورکوٹ ،پنڈی لال مرید ( جھنگ )،ٹیکسلا ،ہڑپہ ،موہنجو دڑو ،مہر گڑھ ( بلو چستان)اور قلعہ لاہور پر تحقیق کی ۔ یہ کھنڈرات اور قدیم عمارات ماضی کی تاریخ کی امین ہیں ۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتے کہ کارواں کے دِل سے احساس ِ زیاں اب عنقا ہو چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب مقتدر حلقوں اور عام لوگوں کو کھنڈرات سے وابستہ لوک ورثہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔وہ آ ہ بھر کر کہتے کہ ان قدیم عمارات کو دیکھ کر تاریخ کا ایک سبق ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔دنیا کی وہ اقوام جواپنی قومی پہچان اور ملی تشخص بر قراررکھنے میں ناکام رہتی ہیں وہ تاریخ کے طوماروں میں دب کر کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ دِ لِ بیناکی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وہ یہ بات واضح کر دیتے کہ ذہن و ذکاوت اسی کا ثمر ہیں۔یہ ذہن و ذکاوت ہی ہے جو ذوق ِ سلیم سے متمتع انسان کوتصورات اور نظریات کے منفرد ذائقے سے آشنا کرنے کا موثر وسیلہ ہے۔عالمی کلاسیک کا پروفیسرحاجی محمد ریاض نے وسیع مطالعہ کیا تھا۔ساختیات ،پس ساختیات ،جدیدیت ،مابعد جدیدیت ،رد تشکیل ،نئی تنقید ،اردو ادب کی تحریکوں ،ورائے واقعیت اور پیراسائیکالوجی جیسے موضوعات پر ان کے لیکچرز ان کے تبحر علمی کے آئینہ دار ہوتے تھے۔انھوں نے جدیدلسانیات میں بھی گہری دلچسپی لی ۔
ایک شگفتہ مزاج معلم کی حیثیت سے وہ طلبا میں بہت مقبول تھے ۔ ان کا کردار زندگی کی تمازت سے لبریز تھا۔انھوں نے سدا اس امر پر اصرار کیا کہ تعمیر وطن کے لیے جد و جہد ہر حال میں جاری رہنی چاہیے ۔سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں میں بھی روشنی کا سفر جاری رکھنے کی تلقین کرنے والے اس دانش ور نے ہمیشہ سعیٔ پیہم کو شعار بنایا ۔ ان کا خیال تھا کہ حریت ِ فکر و عمل کے مجاہد ہر جری ادیب کو احساس سے عاری دباؤ ،ناقابلِ یقین استحصال ، ناقابل ِ تصورناانصافیوں ،ناقابل بر داشت انتقام اور اہانت آمیز جبر و استبدادکے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردادا کرنا چاہیے ۔ان کی گل افشانیٔ گفتار سے ہر محفل کشت ِ زعفران میں بدل جاتی تھی ۔وہ درماندہ اور زخم خوردہ انسانوں کو میراجی کا یہ شعر سناتے تھے :
ہنسو گے تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
چپکے چپکے بہا کر آ نسو دل کے دُکھ کو دھونا ہو گا
اپنی تہذیب و ثقافت سے پروفیسرحاجی محمد ریاض کو گہری دلچسپی تھی ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتے تھے ثقافت افراد کی معاشرت ،جبلت اورطرزِزندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ اس میں فکر و خیال اور جبلتوں کے اضطراری انعکاس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔اس کی جلوہ آرائی سے تہذیب و تمدن کے ارتقا کے احساس و ادراک میں مدد ملتی ہے ۔ ثقافتی اقدار کی بالیدگی جہاں قلبی وجدان،ذہنی سکون اور اطمینان کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے وہاں اس کے اعجاز سے روحانی سوز و سرور کی لازوال دولت بھی میسر آتی ہے ۔ انھوں نے عالمی کلاسیک کے تراجم پر بھی توجہ دی ۔ان کا خیال تھا کہ تراجم کے ذریعے ثقافتی میراث کی منتقلی کا افادیت سے لبریز عمل سدا جاری رہتا ہے۔ اردو زبان میں مضامین ،موضوعات،اور خیالات کی تونگری،تخلیقی فعالیت کی ہمہ گیری اور جذبۂ شوق کی بے کرانی تراجم کی مرہونِ منت ہے ۔ مترجم جب قلم تھام کر ترجمے پر مائل ہوتاہے تو وہ ثقافتی اقدار کی ترسیل کے لیے اس بات کا التزام کرتا ہے کہ اس کے ترجمے پر قاری کو پختہ یقین ہو ۔وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر کسی تخلیق یا ترجمے پر قاری کا اعتماد اور یقین متزلزل ہو جائے تو سارا عمل سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض ملت اسلامیہ کی تہذیبی ،ثقافتی اور علمی وادبی میراث کو لائق صد افتخار سمجھتے تھے ۔ زندہ قومیں اپنی علمی میراث کی نہ صرف حفاظت کر تی ہیں بل کہ اس میں اضافے کے لیے مسلسل جدو جہد کر تی رہتی ہیں ۔ اپنے اسلاف سے ملنے والی عظیم الشان علمی میراث میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ نئی تصانیف کے سا تھ سا تھ ترا جم کے ذر یعے بھی اس کی ثروت میں اضافے کی کوشش کی جائے۔معاشرتی زندگی کے ذہنی اور جذباتی روپ دیکھتے ہوئے تخلیق کار علوم و فنون کے نئے آفاق کی جستجو میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ادب پاروں کے انگریزی تراجم اب یورپ میں مقبول ہو رہے ہیں تراجم کے سلسلے میں وہ شوکت جمیل اور اسیر عابد کے بڑے مداح تھے ۔ شوکت جمیل نے غالب کی شاعری کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھال کر جہاں غالب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا ثبوت دیا ہے وہاں پوری دنیا کو غالب کی عظمتِ فکر سے روشناس کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تخلیق کار کے افکار کی جو لانیوں کو وہ شاعری کی روح قرار د یتے تھے ۔ انھیں اس بات کا قلق تھاکہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی کی اقدار و روایات کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ ہوس کی پید اکردہ بے حسی ،یاس و ہراس کی ظلمتوں اور غم و اندوہ کی کلفتوں نے اذہان کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ترجمہ نگاری کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے ۔ وہ میراجی کی ترجمہ نگاری کے بہت بڑے مداح تھے اور یہ بات زور دے کر کہتے کہ میراجی کے اسلوب کا منفر دپہلو یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کر دی ۔ وہ غالب کی شاعری کے انگریزی تراجم کووقت کا اہم ترین تقاضا سمجھتے تھے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض نے ممتاز مترجم شوکت جمیل کے ا سلوب کو لائق صد ر شک و تحسین قرار دیا۔
ہوس کو ہے نشاط ِکار کیا کیا
نہ ہو مرناتو جینے کا مزا کیا (غالب ؔ)
غالب کے اسی شعر کاشوکت جمیل نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔
(Passion (for life) has the thirst to do what not,

If there be no death what relish there be in living.)
جس بے حس معاشرے میں سائے ،فریبِ نظر اور سراب کاعذاب آفت نا گہانی بن جائے وہاں زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ۔آج کے دور میں انسان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جائے تو دہشت کی جان لیوا فضاسے گھبرا کر کفن بردوش شہر خموشاں کا رُخ کرلیتاہے ۔
خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
What pleasure in living, what dole in dying

Of what moment our life is and of what we are.)
پنجابی تہذیب و ثقافت کے شیدائی پروفیسر اسیر عابد نے تراجم کو ثقافتی ارتقا کے لیے نا گزیر سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ دی۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوانِ غالب کا جومنظوم پنجابی ترجمہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ کلام غالب ؔ کے اس منظوم ترجمے کی مثالیں پیش کر کے وہ اپنے شاگردوں کے لیے غالبؔ فہمی کو بے حد سہل بنا دیتے ۔ جھنگ کے دیہی علاقوں کے اکثر طالب علموں کی مادری زبان پنجابی ہے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض تعلیمی نفسیات کے ماہر تھے۔ غٖالبؔ کے مشکل اشعار کی اردو میں تشریح کرتے وقت وہ اپنے شاگردوں کو اسیر عابد کا ترجمہ بھی سنا دیتے تھے ۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنی تدریس کو موثر بنا دیتے بل کہ استحسان و ابلا غ کو بھی یقینی بنا دیتے تھے ۔ اس انداز میں غالبؔ پر ان کے توسیعی لیکچرز بہت کامیاب ثابت ہوئے ۔ انھوں نے کالا شاہ کاکو ،کالا باغ ،کالا بالی اور کالا م کی ادبی نشستوں میں غالبؔ کی انسان دوستی اور فعال زندگی کی آئینہ دار شاعری پر متعدد توسیعی لیکچرز دئیے ۔ مثنوی مولانا روم ، وارث شاہ کی ہیر ، دیوان غالبؔ ، شیکسپئیر کے ہیملٹ ، گوئٹے کے فاوسٹ اور ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس کے بارے میں ان کا خیا ل تھا کہ یہ ادب پارے روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثرا ٓفرینی سے مزین دل کش اسلوب کی بنا پر ابد آشناہیں ۔ پنجابی زبان میں یہ استعداد موجود ہے کہ اس میں عالمی کلاسیک کے تراجم کیے جائیں ۔ غالب ؔکے درج ذیل اشعار اوران کا پنجابی ترجمہ تو پروفیسرحاجی محمد ریاض کو بے حد پسند تھا۔ادبی نشستوں میں وہ اپنے دبنگ لہجے میں جب یہ اشعار اور ان کا پنجابی ترجمہ پڑھتے توسامعین اش اش کر اُٹھتے۔
بس کہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا (غالبؔ)
اوکھی گل اے کم کوئی آسان ہووے
ایہہ وی سوکھا نہیں ،بندہ انسان ہووے (اسیرعابد)
دِ ل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کوداغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا کار فرماجل گیا (غالبؔ)
دِل ہونداتے آپے تینوں بلدے داغ وِکھاندا
میں ایہہ دِیوے کتھے بالاں بالن والابلیا (اسیر عابد)
تُو اور سُوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اوردُکھ تری مژہ ہائے دراز کا (غالبؔ)
اودھرتُوں پیا ویکھیں غیراں ولے ڈُونگھی ڈُونگھی اَکھ
ایدھر مینوں رڑکاتیریاں لمیاں لمیاں پلکاں دا (اسیرعابد)
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں تراار اہ گزر یاد آیا (غالبؔ)
اینویں کیویں لنگھ حیاتی جانی سی
خورے کاہنوں تیرا لانگھا یاد پیا (اسیرعابد)
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کودیکھ کے گھر یاد آیا (غالبؔ)
اَت اُجاڑاں جیہیاں اَت اُجاڑاں نیں
تھلاں بریتے ڈِٹھیاں جُھگا یاد پیا (اسیرعابد)
موت کا ایک دِن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ( غالبؔ)
پکی گل اے مرنااِک دِن مِتھیااے
نیندر کا ہنوں جھلی آؤندی نہیں (اسیرعابد)
آگے آتی تھی حالِ دِل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی (غالب )
اَگے دِل دے حالوں ہاسڑ آؤندی سی
ھُن کسے وی گلوں بھیڑی آؤندی نہیں (اسیرعابد)
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی (غالبؔ)
منیا متھے ٹیکیاں اجر ودھیرے نیں
ایسے پاسے طبع کُپتی آؤندی نہیں (اسیر عابد)
حُسن غمزے کی کشا کش سے چُھٹا میر ے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد (غالبؔ)
رُوپ سنگھاراں دی کھیچل تُوں چُھٹیا میرے پِچھوں
شُکر اے !ظالم لوکاں وی سوں ڈِٹھا میرے پِچھوں (اسیرعابد)
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولی ٔ انداز و ادا میرے بعد (غالبؔ)
عشق دی جوگ کماون والے ،ٹلے منھ نہیں کردے
ہِیراں ڈِنگے چِیر ،نہ متھے ٹِکا میرے پِچھوں (اسیر عابد )
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلامیرے بعد (غالبؔ )
عشق دی بے وسیاں اُتے غالب روندا ٹُریا
ویکھ ایہہ ہڑھ کہیڑے و یہڑے وڑدا میرے پِچھوں (اسیر عابد)
ایک صاحب باطن فقیر کی حیثیت سے پروفیسرحاجی محمد ریاض کے کشف و کرامات کا ایک عالم معترف تھا۔ پیرا سائیکالوجی کی آئینہ دار ان کی پیش بینی ان کی بصیرت کی مظہر تھی ۔عادی دروغ گو اور پیمان شکن سفہااور اجلاف و ارذال سے پروفیسرحاجی محمد ریاض کو شدید نفرت تھی ۔ وہ اس بات پر تشویش کاظہار کر تے کہ مکر و فریب اور دغا و دُزدی سے لبریز سراب نماخواب دکھاکر متاعِ دیدہ و دِل اور زرومال لُوٹنے والے پیشہ ور ٹھگوں اور عیاروں نے معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔ ان کے پڑوسی ریٹائرڈ استاد منشی بشیرکے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا ۔اس بوڑھے معلم کا نوجوان بیٹاحرکت قلب بند ہونے کے باعث چل بسا ۔اس سانحہ نے منشی بشیر کو زندہ در گور کر دیا اور اس کی غور و فکر کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ بعض شاطر بھڑوے موقع کی تلاش میں تھے وہ منشی بشیر کو سبز باغ دکھاکر نائکہ قفسی کے پاس لے گئے ۔اپنے نو جوان بیٹے کی موت کے جان لیوا صدمے سے توجہ ہٹانے کی خاطر منشی بشیر نے اپنے چھوٹے بیٹے کی منگنی بیوہ نائکہ قفسی کی بیٹی صبوحی سے کر دی ۔ واقف حال لوگوں نے منشی بشیر کو بہت سمجھایا کہ وہ سائے اور سراب کی جستجو میں خجل نہ ہو۔ٹھگوں اور اُچکوں کے جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھنے والی یہ طوائفیں تو فصلی بٹیرے ہیں جو دانہ چُگ کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا ۔یہ لرزہ خیز خبر سن کر پروفیسرحاجی محمد ریاض نے آ ہ بھر کر کہا منشی بشیر بہت سادہ لوح شخص ہے جو ایک عیار کٹنی اور پیشہ ور طوائف کے دام میں پھنس گیا ہے۔ نوجوان بیٹے کی الم ناک موت نے منشی بشیر کو فکر ی اعتبار سے مفلس و قلاش کر دیاہے ۔ گردشِ ایام کی زد میں آنے کے بعد تقدیر کے ستم سہہ کر اب و ہ ہر قسم کادھوکا کھانے پر تُل گیا ہے اور فریب خوردگی ہی اس کا مطمح نظر بن چکاہے ۔اب وہ ہر حال میں کسی نہ کسی قسم کا فریب کھا کر زندگی کے دِن پورے کر ے گا۔ وہ دِن دُور نہیں جب منشی بشیر اپنے دل کے افسانے اپنے دل میں لیے آہیں بھرتاپھرے گا ۔ وہ اپنا حالِ زبوں کسی کو سنانے کی تاب بھی نہیں لا سکے گا۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی نائکہ قفسی نے اپنے مکر کی چالوں سے منشی بشیر کی سب جمع پونجی بٹور لی اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ٹھگی کی اس واردات کے بعدنائکہ قفسی اپنی بیٹی صبوحی کو لے کر بدین چلی گئی اور گولاڑچی میں ایک چو ر محل میں رہنے لگی ۔ وہاں اس نے بھاری قیمت وصول کر کے اپنی بیٹی کی شادی ایک بوڑھے جاگیردارکے عیاش نوجوان بیٹے سے کر دی ۔اس نے خود بھی ایک ضعیف جا گیردار سے شادی کر لی ۔اس فریب خوردگی کے بعد منشی بشیر نے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔وہ اپنی دُھن میں مگن ہر وقت یہ گیت گنگناتا رہتا۔
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
کس کس سے اپنا رشتہ ٔ جاں توڑآئے ہیں
مشکل ہو عرض ِ حال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دردِ وفا کون د ے گیا
راتوں کو جاگنے کی سزا کون دے گیا
کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں ٓٓئے
اپنے احباب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کی اساس پر استوار تعلق کو پروفیسرحاجی محمد ریاض نے زندگی بھر بر قراررکھا ۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ پرانے آشنا چہرے جب ردائے خاک اوڑھ کر سو جاتے ہیں تواُن کی یادوں پر ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پڑ جاتی ہے ۔ پیہم شکست ِدل کے نتیجے میں اب تو لوگوں کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی دائمی مفارقت دے جائے کسی کو ملال نہیں ہوتا۔شفیع ہمدم کی وفات کے بعد ان کے بیٹے فیصل آباد منتقل ہو گئے ۔ احمد بخش ناصر کے انتقال کے بعد اُن کے سب عزیزبیرون ملک ہجرت کر گئے ۔حاجی محمد نواز کی رحلت کے بعد ان کی اولاد نے روزگار کے سلسلے میں کینیڈا میں ڈیرے ڈال دئیے ۔ممتازادیب رانا عزیز احمدناظر کے سانحہ ٔ ارتحال کے بعد اُس کے بچوں کو اپنے ننھیالی شہرلاہورکی فضا راس آ گئی ۔صاحب زادہ رفعت سلطان کی وفات کے بعدپس ماندگان سرگودھا چلے گئے ۔ پروفیسرحاجی محمد ریاض جب بھی قدیم شہر سے نئے شہر میں جاتے تو ان پرانے ساتھیوں کے بندمکانوں کو دیکھ کر دل گرفتہ ہو جاتے ۔مکینوں کے رخصت ہونے کے بعد خالی مکانوں کے نوحہ کناں با م و در اور مقفل کواڑوں کو دیکھ کر کلیجہ منھ کوآتا۔اس موقع پر وہ اپنے دوست مرزا محتشم علی بیگ رسا چغتائی(1928-2018) کے یہ شعر پڑھتے تو سننے والے بے اختیار رونے لگتے۔
کہیں انسان بے چہرہ کھڑا ہے
کہیں بے دست و پا سایا پڑا ہے
نہ پینے کے لیے آ نسو ہیں باقی
نہ پانی کے لیے کوئی گھڑا ہے
تیری یادوں کا یہ مہمان خانہ
زمانہ ہو گیا ویراں پڑا ہے
عزیز قارئین! میں نے کوشش کی ہے کہ اس مضمون میں ایک معلم کی دائمی مفارقت پر اُس کی خدمت میں آنسوؤ ں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کروں ۔اس کی قناعت اور استغنا پر اسے خراج تحسین پیش کروں ۔اس شہر سدا رنگ کے اُداس بام اور کُھلے در اُس درویش کو پکار رہے ہیں جس نے اپنے خون جگر سے انھیں نکھا ر نے کی سعی کی ۔ زندگی بھر زر و مال،نمود و نمائش اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے والے اِس درویش منش استاد نے کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی ۔ وہ ایک عظیم انسان تھا جس نے اپنی زندگی دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر ر کھی تھی ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پُور ی انسانیت کے درد و غم اس کے دل و جگر میں سمٹ آ ئے ہیں۔ ہم اسے روز دیکھتے تھے مگر اس بات کا کوئی گمان ہی نہ تھاکہ وہ ہماری بزمِ وفا سے اس قدر جلد اور اچانک اُٹھ جائے گا۔ عصر حاضر کے مقبول شاعرکاوش عباسی کی یہ ثلاثی میرے جذبات حزیں کی ترجمان ہے :
جینے کے رات دِن نہ تھے وہ راہِ مرگ تھی
وہ روز مر ر ہا تھا،اُسے دیکھتے تھے ہم
ہم میں ہر اِک کی زندگی اور موت ہے یہی
سہ پہر کا وقت تھا پروفیسرحاجی محمد ریاض کا جسد خاکی لحد میں اتارا گیا تو ہر دل سوگوار اور ہر آ نکھ اشک بار تھی ۔زندگی بھر صبر و رضا اور مشیت ایزدی کے سامنے سر ِ تسلیم خم کرنے کی تلقین کرنے ولا ناصح چل بسا ۔ جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک کے کنار ے واقع پندرہ سوسال قدیم شہرخموشا ں ( کربلاحیدری ) کی دوسری جانب تعلیمی ادارے کے کم سن طالب علم اپنی اپنے بستے تھامے گھروں کی جانب جارہے تھے ۔دن بھر کی محنت مزدوری سے درماندہ مزدوراوررہرو بھی بوجھل قدموں سے واپس جارہے تھے ۔ فضا میں طیور اپنے آشیانوں کی جانب محو پرواز تھے ۔ قزاقِ اجل کی غارت گری کے بعداس بلا کا سکوت چھایا تھاکہ ہر جان دار حواس باختہ ، غرقابِ غم اورنڈھال دکھائی دیتا تھا۔پروفیسرحاجی محمد ریاضکے قریبی عزیز، مخلص احباب ،پڑوسی اور شناسا سب فرطِ غم سے نڈھال تھے اورگریہ و زاری کر ر ہے تھے ۔ وہاں کچھ بے حس لوگ ایسے بھی تھے جواپنی دھن میں مگن سر گوشیوں میں مصروف تھے ۔ شہر خموشا ں کے کنارے کھڑے ہو کر سیلانی مزاج فقیر ، نوحہ خواں ،لوک گلوکار اور ملنگ یارا سازندہ نے اپنے عہد کی ممتاز مغنیہ بیگم اختر(1914-1974) کی گائی ہوئی مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر سُدرشن کرما فاکرؔ(1934-2008)کی لکھی ہوئی یہ غزل ترنم سے پڑھی اور رونے والوں سے مخاطب ہو کر گلو گیر لہجے میں یہ شعر پڑھے تو پروفیسرحاجی محمد ریاض کی تدفین میں شامل ہونے والے سب سوگوار دھاڑیں مارمارکر رونے لگے:
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو اُ ن کا بھی رونا رولیں
جن کو مجبوریٔ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگی ٔ وقت ِ ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہرروز کے صدمات نے رونے نہ دیا
حریت ضمیر سے جینے والا وہ دانش ور ، وہ عظیم خادم خلق ،وہ بے لوث مصلح ،وہ مخلص دوست ،وہ ایثار پیشہ معالج ،وہ محنتی معلم اور با کمال تخلیق کار اب ہماری صفوں میں موجود نہیں ۔وہ ایسا کثیر الجہت شخص تھا جس جیسابننے کی تمنا کی جا سکتی تھی۔اب اس نے ایسے دُور دراز مقام پر اپنی بستی بسا لی ہے کہ پس ماندگان کے پاس یاد رفتگاں کی بھی سکت باقی نہیں رہی ۔ اجل کے وار سہنے کے بعد ہمار ی سب آرزوئیں مات کھا کر ر ہ گئی ہیں ۔ تقدیر کے حکم کی تعمیل میں اس نے وہاں ڈیر ے ڈال دئیے ہیں جہاں صر ف ہمار ی دعائیں ہی پہنچ سکتی ہیں۔ اﷲ حافظ حاجی محمد ریاض !
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.