اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کے
تحت دنیا بھر میں بارہ سال سے کم عمر بچوں سے جبری مشقت لینے پر پابندی ہے
اور بچوں سے جبری مشقت لینا عالمی جرم قراردیا گیا ہے۔مگر ہمارے ملک میں
چایلڈ لیبر کو جرم ہی نہیں سمجھا جارہا۔ہرسال بارہ جون کو بچوں سے جبری
مشقت لینے کے خلاف دن منایا جاتا ہے اور یہ دن 2002سے منایا جا رہا
ہے۔گیارہ دسمبر 1946کو اقوام متحدہ بین الاقوامی بچوں کا ہنگامی فنڈ
UNICEFکا ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے بچوں کو صحت کے
تحفظ،غذا،تعلیم،صاف پانی کی سپلائی اور بچوں کیلئے دیگر ضروری اقدامات
اٹھانا تھا مگر پاکستان میں یہ ادارہ برائے نام کام کررہاہے چائلڈ لیبر کے
حوالے سے پاکستان دنیا کے چھٹے نمبر پر ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق سوا کروڑ
بچے پاکستان اور آزادکشمیرمیں جبری مشقت پر مامور ہیں۔سب سے زیادہ پنجاب
دوسرے نمبر پر قبائلی علاقوں یا افغان بچوں سے جبری مشقت لی جاری ہے۔شدید
ترین گرمی اور شدید سردی میں بھی ان معصوموں سے کام لیا جاتا ہے بڑی وجہ
غربت ہے اور والدین اپنا معاشی بوجھ کم کرنے کیلئے بچوں سے مزدوری کرواتے
ہیں اور وہ بچے جن کے والدین وفات پا جاتے ہیں یا خانگی جھگڑوں کی وجہ سے
ان کے گھر برباد ہوجاتے ہیں وہ بھی اس شعبہ میں ذلیل وخوارہو رہے ہیں جن سے
مکینک،حجام،درزی،نان بائی اور دیگر پیشوں کے ماہر افراد سستا اوربے زبان
شاگرد سمجھ کر خوب کام لیتے ہیں ان پر بہیمانہ تشدد کیا جا تا ہے۔کم عمری
کے باعث مزاحمت یا دوکان،ورکشاپ چھوڑ کر بھاگ بھی نہیں سکتے اس کے علاوہ ان
کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں اس سارے کھیل میں معاشرہ گناہگار ہے
جو خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ کر چپ ہے اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی جملہ
ہوتا ہے کہ غربت ہے یہ بچارے پڑھ کر کیا کر لینگے اور یہی وجہ چائلڈ لیبر
میں اضافے کا باعث ہے حکومت کو چاہیے کہ چائلڈ لیبر پر قابو پانے کیلئے
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991،چلڈرن رولز 1995،مائنز ایکٹ 1923،پلیجنگ
ایکٹ 1933اور فیکٹریز ایکٹ 1934کے تحت اقدامات اٹھائے۔آئین پاکستان کے
آرٹیکل گیارہ کے تحت کسی فیکرٹری یا کارخانے یا دیگر پر خطر مقامات پر چودہ
سال سے کم عمر بچے سے کام نہیں لیا جا سکتا جبکہ آرٹیکل 25کہتا ہے کہ پانچ
سال سے 16سال کی عمر کے بچوں کیلئے لازمی اورمفت تعلیم دینے کا انتظام
ریاست کریگی۔اور جبری مشقت پر دکاندار،کارخانہ دار یا ورکشاپ والے مالک کو
1سال قید بامشقت دی جا سکتی ہے۔تو کیا ہماری ریاست میں ان قوانین پر
عملدرآمد ممکن نہیں یا حکومت بچوں کی تعلیم اور ان کی پرورش کی ذمہ داری سے
عہدہ برآں ہے۔چائلڈ لیبر ختم کرنے سے بھی بے روزگاری کو کنٹرول کیا جا سکتا
ہے کیونکہ کم عمر بچوں کو لوگ سستا ملازم سمجھ کر مشقت لیتے ہیں اور بالغ
بے روزگاروں کو روزگار نہیں ملتا۔ |