پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز جاری ہے
جہاں بارش نےپہلے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو شکست کا داغ لگانے سے بچالیا
جبکہ ٹور میچ میں قومی ٹیم نے کرکٹ آسٹریلیا الیون کو6وکٹوں سےزیر کیا۔ ٹی
ٹوئنٹی سیریز کے بعد دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلی جائے گی جہاں ٹیسٹ
کرکٹر اظہر علی کی کپتانی کا ایک اور کڑا امتحان شروع ہوگا۔
ٹیسٹ کرکٹ کی قیادت سرفراز احمد سے چھین کر اظہر علی کو دی گئی جبکہ بابر
اعظم کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ گزشتہ ماہ سری لنکا کیخلاف
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کے بعد پی سی بی نے سرفراز احمد کو قربانی کابکرا
بنایا گیا۔
خیال رہے کہ 34سالہ بیٹسمین نے 2016میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ کی
کپتانی کی تھی جس میں پاکستان کو 138رنز سے شکست ہوئی ۔ اب کو ان کو
باضابطہ طور پر طویل مدت کی کپتانی سونپی گئی ہے جبکہ اس سے قبل وہ ون ڈے
کرکٹ ٹیم کی کپتانی بھی ان کےلیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوچکا ہے۔ انہوں نے
لارڈ زمیں جولائی 2010 میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کیا۔ اکتوبر2016 میں ویسٹ
انڈیز کیخلاف ٹرپل سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ 73 ٹیسٹ میچز میں
5,669رنز بناچکے۔
اظہر علی کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کو ون ڈے سے قبل ٹیسٹ کرکٹ
میں ڈیبیو کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے2011 میں بلفاسٹ میں آئرلینڈ کے خلاف
ون ڈےانٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کیا۔2015 میں سابق کپتان مصباح الحق کی ون ڈے
سے ریٹائرمنٹ کے بعد رائٹ ہینڈ بیٹسمین نے ٹیم کی کمان سنبھالی۔ ان کا پہلا
امتحان بنگلہ دیش کا دورہ تھا جہاں ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کو ذلت آمیز
شکست سے دوچار ہونا پڑا جبکہ بنگلہ دیش نےنہ صرف 1999کے بعد پہلاون ڈے جیتا
بلکہ تین ون ڈے انٹرنیشنل پر مشتمل سیریز میں گرین شرٹس کو کلین سوئپ کرکے
تاریخی کامیابی حاصل کی۔
البتہ مصباح کی قیادت میں ٹیسٹ سیریز میں تو کامیابی قومی ٹیم نے بنگلہ دیش
کیخلاف دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز 0-1 سےجیتی۔ اظہر علی کی قیادت میں
قومی ٹیم نے 2015-17تک زمبابوے ،سری لنکا اور ویسٹ انڈیز اور آئر لینڈ
کیخلاف سیریز اپنے نام کئے لیکن بڑی بڑی ٹیموں انگلینڈ، آسٹریلیا اور
نیوزی لینڈ کیخلاف محدود اوورز کی سیریز جیتنا خواب ہی رہا۔
اسی دوران ٹیم کی مسلسل ناکامیوں سے مایوس ہو کر اظہر علی بھی ہمت ہار گئے
اور2017میں عہدے سے دستبردار ہوئے۔ واضح رہے کہ اظہر علی کی قیادت میں ٹیم
آئی سی سی درجہ بندی میں نویں پوزیشن پر پہنچی تھی۔ انہوں نے بطور کپتان
29ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے جس میں 12میں کامیابیاں ملیں، 16میں ناکامی
کا سامنا کرنا پڑا اور ایک میچ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔
سرفراز احمد نے 2017میں ویسٹ انڈیز کیخلاف ون ڈے سیریز میں ٹیم کی قیادت کی
اور سیریز 1-2سے جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کو باضابطہ طور پر 9فروری 2017
کو سابق کپتان اظہر علی کا جانشین مقرر کیا گیا۔ خوش قسمتی سے وہ اپنے پہلے
مشن چیمپئنز ٹرافی میں کامیاب ہوئے اور پاکستان کو بھارت کیخلاف180رنز سے
کامیابی دلاکر پہلی بار چیمپئن بنادیا۔
دوسری جانب اظہر علی نے عہدے سے دستبرداری ہونے کے ایک برس بعد 50اوورز کے
فارمیٹ کی کرکٹ کو خیر باد کہا اور صرف ٹیسٹ کرکٹ میں توجہ مرکوز رکھنے کا
اعلان کیا۔ انہوں نے جنوری 2018 میں آخری بار نیوزی لینڈ کےخلاف میچ کھیلا
اور 53 ایک روزہ میچز میں 36.9 کی اوسط سے 1,845رنز بنائے، جس میں 3
سنچریاں اور 12 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
کینگروز کی سرزمین میں ان کو قابو کرنا قومی ٹیم کے لیے ہمیشہ سے چیلنج رہا
ہے۔ 1964-65سے لیکر 2016-17تک پاکستان 12بار آسٹریلیا کا دورہ کرچکا ہے
لیکن گرین شرٹس کو ایک بار بھی جیت کی جھلک نہ دیکھنا نصیب نہ ہو سکا۔
دونوں کے درمیان12 ٹیسٹ سیریز کھیلے جاچکے ہیں جس میں سے پاکستان نے صرف
تین میچز ڈرا کئے اور 9 بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ وہی کرکٹ بورڈ ہے جس نے2015میں سرفراز احمد کو زمین سے آسمان تک
پہنچایا تھا اور تینوں فارمیٹ کی اہم ذمہ داری بھی سرفراز کو سونپی تھی
تاہم سلیکٹرز اور کوچ مصباح اور بولنگ کوچ وقار یونس کے دور اقتدار میں
آنے سے نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ کرکٹ بورڈ نے سرفراز سے بادشاہت ہی چھین
لی۔ سری لنکا سیریز کے دوران چیئرمین احسان مانی نے ہی کہا تھا کہ سرفراز
دورۂ آسٹریلیا میں کپتان رہیں گے لیکن اب ان کا موقف ہے کہ سرفراز کا
باہر کرنے کا فیصلہ ٹیم کے بہترین مفاد میں کیا گیا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ
صرف سرفراز کو دورہ آسٹریلیا سے ڈراپ کرنے سے ٹیم کیا بہتری آئی گی یہ تو
آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
دوسری جانب پی سی بی چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کی پیشکش قبول کرنے سے انکار
پر ان کیخلاف انتقامی کارروائی کی گئی ہے اور ان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے بھی
نکال دیا۔ واضح رہے کہ سرفراز کی قیادت میں پاکستان آئی سی سی ٹی ٹی
ٹوئنٹی رینکنگ میں ٹاپ پر ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے مسلسل 11ویں
سیریز جیتی۔ انہوں نے بطور ٹی ٹوئنٹی کپتان ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا، نیوزی
لینڈ، انگلینڈ اور زمبابوے کی ٹیموں کیخلاف فتوحات سیمٹی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 32سالہ سرفراز احمد کی انفرادی کارکردگی سری
لنکا کیخؒلاف سیریز میں متاثر کن رہی لیکن صرف ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز کی شکست
پر صرف کپتان کو ذمہ ٹہرانا درست نہیں۔ ناقص کارکردگی پر ان کو قومی ٹیم کی
قیادت سے برطرف کیا جاسکتا تھا لیکن دورہ آسٹریلیا کے کسی بھی فارمیٹ میں
شامل نہ کرنا یہ سراسر اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر سرفرا ز کی کارکردگی
خراب تھی تو اظہر علی کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے وقت میں ان کو
قومی ٹیم کی باگ ڈور دی گئی ہے جس کی اپنی پرفارمنس نہ ہونے کے برابر ہے۔
اظہر علی نے 2017 میں آسٹریلیا سے سیریز 1-4 سے ہارنے پر ون ڈے کرکٹ کی
کپتانی سے استعفی دیا تھا اور اب دورۂ آسٹریلیا سے ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا
نیا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امتحان میں کتنے
کامیاب ہوتےہیں۔
دورۂ آسٹریلیا کےلیے نئے چہروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ٹیسٹ اسکواڈ میں
حیران کن طور پر 16 سالہ فاسٹ بولر نسیم شاہ کو شامل کیا گیا جبکہ ٹی
ٹوئنٹی میں 19سالہ فاسٹ بولر موسیٰ خان کو دونوں اسکواڈ میں جبکہ 24سالہ
مڈل آرڈر بیٹسمین خوش دل شاہ اور 26سالہ لیگ اسپنر عثمان قادر کو شامل کیا
گیا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کو موقع دینا اچھا فیصلہ ہے لیکن آسٹریلیا جیسی تیز
اور باؤنسی وکٹیں پر ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بھیجنا کہاں کی
عقلمندی ہے۔ آسٹریلوی بولرز مچل اسٹارک،پیٹر سڈل ،جوش ہیزل ووڈ ،پیٹ
کامنز،ناتھن لیون کا اظہر الیون کیسے مقابلے کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے
گا۔
|