پشاور کی کرکٹ اکیڈمی کا "تکہ پارٹی" اسکینڈل: قانونی اور ضلاعی ضوابط کی خلاف ورزی کا شبہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبائی دارالحکومت پشاور میں واقع معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی، جو کہ محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کے زیر انتظام ایک سرکاری اسپورٹس انسٹی ٹیوٹ ہے، رات گئے ایک نجی تقریب کی میزبان بن گئی۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اکیڈمی کے احاطے میں آگ جلا کر تکہ پارٹی کا اہتمام کیا گیا، جس میں کھانے پینے اور تفریح کا بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی شہریوں، کھلاڑیوں اور مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ عوامی سطح پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سرکاری کھیلوں کی اکیڈمی میں اس نوعیت کی تقریبات کیا قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ یہ اکیڈمی محکمہ کھیل کے زیر انتظام ہے اور اس کا بنیادی مقصد نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت، سہولیات اور کھیلوں کا ماحول فراہم کرنا ہے، نہ کہ اسے نجی پارٹیوں، تقریبات یا تفریحی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جائے۔
شہری حلقوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس خیبرپختونخوا کے پاس فنڈز کی کمی کا مسلسل دعویٰ کیا جا رہا ہے، تو پھر سرکاری املاک پر نجی پارٹیوں کا انعقاد کس کی اجازت سے کیا جا رہا ہے؟ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ اکیڈمی کی تزئین و آرائش اور پچز کی تعمیر جیسے کام زلمی فاو¿نڈیشن کی معاونت سے مکمل کیے گئے تھے۔ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ سرکاری اوقات کے بعد ادارے کی املاک کا نجی استعمال نہ صرف اخلاقی طور پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ عمل ضابطہ اخلاق اور ممکنہ طور پر فائر سیفٹی اور مقامی بلدیاتی قواعد کی بھی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔دوسری جانب، محکمہ کھیل کے اعلیٰ حکام کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، قائم مقام ایڈمنسٹریٹر کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ حارث اپنے کوچ کے ہمراہ آئے تھے اور انہوں نے یہاں پر کھلاڑیوں کیلئے کھانے پینے کی پارٹی کا کہا تھا اور یہ سب کچھ زبانی تھا.
صوبائی دارالحکومت پشاور میں معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی کے احاطے میں رات گئے نجی تکہ پارٹی کی وائرل ویڈیو نے نہ صرف اخلاقی سوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ پاکستان میں سرکاری املاک کے استعمال سے متعلق موجودہ قوانین و ضوابط کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ یہ اکیڈمی محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کے زیر انتظام ہے۔پاکستان میں سرکاری املاک کے استعمال کے حوالے سے کئی قوانین اور ضوابط موجود ہیں جن کا مقصد عوامی اثاثوں کا درست اور شفاف استعمال یقینی بنانا ہے۔ اس معاملے میں درج ذیل قانونی اور انتظامی اصولوں کی خلاف ورزی کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے:
جنرل فنانشل رولز (GFRs): یہ قواعد حکومتی اخراجات اور مالیاتی نظم و نسق کو کنٹرول کرتے ہیں۔ GFRs کے تحت، سرکاری فنڈز یا املاک کو کسی خاص فرد یا کمیونٹی کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کی اجازت واضح پالیسی یا قانون کے تحت نہ ہو۔ اکیڈمی کی بجلی، پانی، فرنیچر یا دیگر وسائل کا نجی پارٹی کے لیے استعمال اگر بغیر کسی معاوضے کے کیا گیا ہے، تو یہ سرکاری وسائل کا غیر مجاز استعمال ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ "حکمرانوں نے سرکاری پیسے کو ذاتی سمجھ کر بانٹا۔ حکومت کی مالی حالت اسی وجہ سے خراب ہے۔ یہ رقم [سرکاری] ہوتی ہے، حکمرانوں کا ذاتی نہیں ہوتا۔" اس بیان کی روشنی میں، اکیڈمی میں بغیر کسی رسمی اجازت اور معاوضے کے پارٹی کا انعقاد قومی خزانے کو بالواسطہ نقصان پہنچانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین، بشمول محکمہ کھیل کے اہلکار اور اکیڈمی کے کوچز، ایک مخصوص ضابطہ اخلاق کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ضابطہ اخلاق ان سے پیشہ ورانہ طرز عمل اور عوامی املاک کے احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ سرکاری اوقات کے بعد اکیڈمی کا نجی مقصد کے لیے استعمال ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جا سکتا ہے۔
اگر ایڈمنسٹریٹر نے زبانی اجازت دی تھی تو یہ بھی تحقیقات کا حصہ ہو گا کہ آیا انہیں اس قسم کی اجازت دینے کا اختیار تھا یا نہیں، اور کیا یہ اختیارات کا ناجائز استعمال تھا؟پاکستان کے ہر صوبے میں عام طور پر پبلک پراپرٹی کے استعمال، تحفظ اور انتظام سے متعلق قوانین موجود ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا اپنا پبلک پراپرٹی ایکٹ یا متعلقہ ضوابط ہو سکتے ہیں جو سرکاری کھیلوں کے اداروں کے استعمال کو منظم کرتے ہوں۔ اس ایکٹ کے تحت، عوامی املاک کا کسی بھی ایسے مقصد کے لیے استعمال جو اس کے بنیادی مقصد سے ہٹ کر ہو یا جس کی باقاعدہ اجازت نہ ہو، غیر قانونی تصور کیا جا سکتا ہے۔
اس معاملے میں کرکٹ کھلاڑی کی شمولیت نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا بین الاقوامی کرکٹ سے وابستہ افراد قانون سے بالاتر ہوتے ہیں؟ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا اصول تمام شہریوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے، خواہ ان کا پیشہ یا سماجی رتبہ کچھ بھی ہو۔ کسی بھی انٹرنیشنل یا قومی سطح کے کھلاڑی یا کوچ کو قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کردار اس کے برعکس، نوجوانوں کے لیے ایک مثال قائم کرنا ہے۔
اس واقعے پر محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کی تاحال خاموشی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک شفاف اور جامع تحقیقات کا آغاز کیا جائے تاکہاجازت دینے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ ‘قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے‘ مستقبل میں سرکاری کھیلوں کے اداروں کے نجی استعمال کو روکنے کے لیے واضح پالیسیاں اور سخت نگرانی کا نظام وضع کیا جائے‘ یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ سرکاری اثاثوں کے درست اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ریاستی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
#SportsCorruption #PublicPropertyMisuse #PeshawarSportsScandal #KPKSports #AccountabilityNow #TaxpayersMoney #CricketAcademyMisuse #GovernmentNegligence #YouthDeserveBetter #StopMisuseOfFunds #ZalmiFoundation #KPSSportsDirectorate #SportsForYouthNotParties #TikkaPartyScandal #HoldThemAccountable #SavePublicInstitutions #MisuseOfAuthority #PeshawarNews #KhyberPakhtunkhwa #SportsJournalism
|