موجودہ آسٹریلیا کے دورے پر پاکستان کرکٹ ٹیم کو کافی
وقفے کے بعد لگاتار دو ٹی-ٹوئنٹی سیریز میں شکشت کا سامنا کرنا پڑا. کچھ
نئے تجربے کیے گئے جو کے بہتر نتائج مرتب کرنے میں نا کام رہے. افتخار احمد
اور بابر اعظم کے علاوہ کوئی بلے باز آسٹریلیا کی تیز گیند بازی کا مقابلہ
نہیں کر سکا. جو لوگ کرکٹ کو سمجھتے ہیں وہ لوگ پہلے ہی پاکستان کرکٹ کی
ناکامی کا خدشہ ظاہر کر چکے تھے.اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کپتان نا
تجربہ کار تھے اور ٹیم کا کمبینشن بھی بہتر نظر نہیں ا رہا تھا.
کرکٹ سے پاکستان کی عوام کا کیا لگاؤ یہ سب جانتے ہیں اور اس کھیل سے ہم
جذباتی طور پر منسلک ہوتے ہیں اور ایسی کارگردگی شائقین کو جذباتی طور پر
بہت متاثر کرتی ہے. سوال یہ ہے کے ذمہ دار کون ہے تو بظاھر ہم سب جانتے ہیں
کے انٹرنیشنل کرکٹ میں دماغ کا تیز ہونا کتنا ضروری ہے مہارت تو ہوتی ہے
لیکن ھمارے کرکٹر جدید کرکٹ جس میں دماغ کا عمل دخل مہارت سے زیادہ ہے سمجھ
نہیں پا رہے.وہ چوٹی چوٹی غلطیاں ہم کر بیٹھتے ہیں جو کے ہماری شکشت کا سبب
بنتی ہیں ان میں سے سب سے بڑی غلطی یہ ہے کے ہم فیلڈ کے مطابق بال نہیں
کرتے. فائن لیگ ٣٠ گز کے دائرے کے اندر ہو اپ اس بیٹسمین کو شارٹ بال کر
دیں جو اس میں مہارت رکھتا ہے تو اپ کو وہی دیکھنے کو ملے گا جو پاکستان
اور آسٹریلیا کے درمیان تیسرے ٹی – ٹوئنٹی میں فنچ نے دکھایا.
اب بات کریں سلیکشن کی تو وہ بھی کچھ خاص نہیں کی گئی. سب سے پہلے تو
سرفراز احمد کو ٹی - ٹوئنٹی کی کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ ہی غلط تھا کیوں
کے نہ تو ان کا ریکارڈ ٹی-ٹوئنٹی فارمیٹ میں کپتان کے طور پر خراب تھا نہ
ہی ان کی جگہ پر کوئی بہتر پلیر اپ کے پاس موجود تھا. سری لنکا کے خلاف
ہونے والی سیریز میں یہ واضح ہو چکا تھا کے ٹیم کو ابھی سینئرز کی ضرورت
درکار ہے لیکن ہم نے وہی غلطی دوبارہ کی اور وہی نتیجہ پایا.
اگر ٣٧ سالہ محمد عرفان کو ساتھ لے کر جا سکتے تھے تو جنید خان،فواد
علم،حفیظ اور شعیب ملک بھی ٹیم کے ساتھ جا سکتے تھے اور شعیب ملک کے علاوہ
باقی سب پلیئرز جب ٹیم سے باہر ہوے تب ان کی کارکردگی بہتر تھی. نئے پلیئرز
میں بلے باز کے طور پر میرے نزدیک سب سے زیادہ احسن علی موقع کے مستحق تھے
جو کے پی-ایس-ایل میں کوئٹہ کی طرف سے کھیلتے ہیں ان کو اس بار موقع ملنا
چاہیے تھا.
مصباح الحق کے لیے دو ذمہ داریوں کو نبھانا اتنا آسان نہیں ہے بلکے کوئی
بھی پاکستان جیسے بڑے کرکٹ کھیلنے والے ملک میں دو ذمداریاں بورڈ کے لیے
نہیں دے سکتا. کہانی پھر وہی پرانی ہے ٹی-ٹوئنٹی ورلڈکپ کی آمد آمد ہے اور
پاکستان کرکٹ ٹیم غیر ضروری تجربے کر رہی ہے. وقت کم ہے اور مسلہ بڑا اگر
جلد اس پر توجہ نہ دی گئی تو ورلڈکپ میں ایک بار پھر پاکستان مشکلات سے دو
چار ہو سکتی ہے. واضح رہے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ آیندہ برس اکتوبر میں آسٹریلیا
میں ہی کھیلا جانا ہے.
|