خیبر پختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں گاڑیاں کہاں پر ہیں.
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ، جو صوبے میں نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے مواقع فراہم کرنے کا ایک اہم ادارہ ہے، آج کل شدید تنقید کی زد میں ہے۔ وجہ؟ محکمہ کی گاڑیوں کا مکمل ریکارڈ ہی موجود نہیں اور کم و بیش اکیس گاڑیاں ایسی ہیں جن کے بارے میں کوئی سرکاری ڈیٹا دستیاب نہیں۔ ان گاڑیوں کو سابق افسران اپنے ساتھ لے گئے، بعض نے اپنے اہل خانہ کو دیں، اور کچھ نے یہاں تک کہ دوستوں یا نجی افراد کو ٹرانسفر کر دیں۔
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذرائع کے مطابق کم از کم 21 گاڑیاں محکمہ میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود اب افسران کے نجی استعمال میں ہیں۔سابق پی ڈی کی اہلیہ کے پاس ایک گاڑی موجود ہے جبکہ دیگر پی ڈی حضرات بھی گاڑیاں ساتھ لے جا چکے ہیں۔ایک گاڑی حیاءت آبادمیں تعینات ایک اہلکار کو دی گئی جس نے اسے اپنے ایک دوست کو دے دیا، اور وہ دوست کسی اور سرکاری ادارے میں کام کرتا ہے۔بعض افسران نے گریڈ 15 یا 16 میں ہونے کے باوجود محکمانہ گاڑیاں حاصل کیں، جبکہ گریڈ 17 کے ضلعی افسران ان سے محروم ہیں۔نجی افراد، جیسے کار خاص یا افسران کے بیٹے، جو کھیلوں سے وابستہ ہی نہیں، گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔بعض گاڑیوں کے لیے فیول بھی سرکاری خزانے سے فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ سارا معاملہ نہ صرف بدانتظامی بلکہ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی سال قبل Vehicle Management System (VMS) متعارف کرایا تھا تاکہ سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ آن لائن رکھا جائے۔ لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس نظام پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ (رائٹ ٹو انفارمیشن) قانون کے تحت معلومات طلب کی گئیں، مگر ادارے نے نہ جواب دیا نہ کارروائی کی۔ اس رویے نے شفافیت اور جواب دہی کے دعووں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
VMS کے مطابق تمام گاڑیوں کی رجسٹریشن، استعمال، مرمت اور ایندھن کا مکمل ریکارڈ رکھنا لازمی ہے۔ Communication & Works Department کے مطابق کسی بھی سرکاری گاڑی کو پرائیویٹ افراد کے حوالے کرنا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ Finance Department نے 2024 سے گاڑیوں کی نئی خریداری پر پابندی لگائی ہے۔ موجودہ گاڑیاں صرف متعلقہ آفیسرز کو آفس ورک کے لیے دی جا سکتی ہیں، فیملی یا دوستوں کے لیے نہیں۔
سابق سیکرٹریز اور پی ڈی حضرات جو محکمہ چھوڑ چکے ہیں، ان سے گاڑیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے سے ادارے گریزاں ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان سے "تعلقات خراب نہ ہوں"۔ یہ رویہ صرف بدانتظامی نہیں بلکہ سرکاری وسائل کا مجرمانہ ضیاع ہے۔ضلعی سپورٹس آفیسرز (DSOs) جو گریڈ 17 میں ہیں، ادارے کی بیک بون سمجھے جاتے ہیں، ان کے پاس ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں۔ دوسری طرف، وہ افسران جو سینئر نہیں یا جنہیں ادارہ چھوڑے مدت ہو گئی، گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ انتظامی ناانصافی کی بدترین مثال ہے۔
موجودہ حالات میںسپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے اب ضروری ہے کہ فوری آڈٹ کرایا جائے تاکہ VMS سے ڈیٹا میچ کیا جا سکے۔RTI قانون کے تحت نہ جواب دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔تمام گاڑیوں کی واپسی یقینی بنائی جائے اور جو افسران یا افراد ان کا استعمال کر رہے ہیں ان پر جرمانے یا قانونی مقدمات دائر کیے جائیں۔ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دی جائے جو ادارے میں شفافیت بحال کرے۔یہ معاملہ صرف گاڑیوں کا نہیں، بلکہ ادارہ جاتی اخلاقیات، قانون کی حکمرانی، اور عوامی وسائل کے تحفظ کا ہے۔ جب تک اعلیٰ سطح پر کارروائی نہیں ہوگی، خیبر پختونخوا کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ نوجوانوں کے لیے مواقع فراہم کرنے کے بجائے چند بااثر افراد کی ذاتی سہولت کا ذریعہ بنا رہے گا۔ #kikxnow #sports #transports #kpk #Kp #peshawar #musarratullahjan #kikxnowdigital #creator #musarratullahjan
|