’’محمد‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی’’جس کی
تعریف کی گئی‘‘ ہے یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب تعریف کرنا
ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین
اور آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے اس کے
علاوہ بھی آپ کے بہت سے نام و القاب ہیں سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار
کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے
پہچانے جاتے تھے حضور نبی کریم محمد بن عبد اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت
باسعادت 12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں اہل سنت کے نزدیک
زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علما 9 ربیع الاول کو درست
مانتے ہیں اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
اﷲ کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کا تعلق قریش عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ہاشم سے تھا اس
خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی یہ خاندان حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن کی پہلی
آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد محترم
عبداﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے
قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھاجب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر چھ سال تھی تو
والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت
وہب تھا جو قبیلہ بنی زہرہ کے سردار وہب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی
تھیں یعنی ان کا شجرہ ان کے شوہر عبداﷲ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن
قصی کے ساتھ مل جاتا ہے آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کانام مبارک آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات
پا گئے اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نئے
سردار حضرت ابو طالب نے سر انجام دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش پر
معجزات رونما ہوئے مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ
گیا ولادت سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین
سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت سرسبزوشاداب ہو گئے اور قریش خوشحال
ہو گئے مشکوٰۃ کی ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد
ہے کہ ــ’’میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں
تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور
اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے
ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے‘‘۔
تقریباً25 سال کی عمر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شام کا سفر کیا جو حضرت
خدیجہ رضی اﷲ عنہاکے تجارتی قافلہ کے لیے تھا اس سفر سے واپسی پر حضرت
خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایمانداری اور
اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ
بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں
اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں آپ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو
شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے
قبول کر لیا اس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضی
اﷲ عنہا قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ
رضی اﷲ عنہاسے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ،
حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں620ء میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
معراج پر تشریف لے گئے اس سفر کے دوران میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے
مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آسمانوں میں اﷲ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے
وہاں اﷲ تعالٰی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی وہاں آپ کی
ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی اﷲ
تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اﷲ کے رسول ؐ
میں ایک بہترین نمونہ ہے ،ہر اس شخص کے لیے جو اﷲ اور یوم آخر کا امیدوارہو
اور کثرت سے اﷲ کو یاد کرے‘‘(الاحزاب۲۱) مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ چند
صحابہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓام المومنین سے عرض کیا کہ آپ نبی اکرم ؐ کے کچھ
حالات زندگی ہم کو بتائیں عائشہ صدیقہ ؓ نے تعجب سے دریافت کیا آپ نے قرآن
نہیں پڑھا جو مجھ سے خلق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرتے ہو؟(مسلم
)یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن تھی ہم مسلمان آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پہ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں کیا
کبھی ہم نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کریمہ پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش
کی ۔۔۔؟ یہی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں جن
عورتوں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن
میں سے نو عورتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت حیات تھیں اور
دوعورتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں ن میں سے
صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی اولاد میں حضرت ابراہیم
کے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے
بطن سے تھیں حضرت ابراہیم جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری
632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے البتہ صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام
کلثوم، فاطمہ حیات رہیں زینب رضی اﷲ عنہا کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے
پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی رقیہ اور ام کلثوم رضی اﷲ
عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضٰ اﷲ عنہ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہ
رضی اﷲ عنہا کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن
ابی طالب سے ہوئی اور ان کے بطن سے حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ،حضرت امام
حسین رضی اﷲ عنہ، زینب اور ا م کلثوم پیدا ہوئیں-
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں
لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں
غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم
غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔غزوہ بدر 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) ،غزوہ
احد7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء ) غزوہ خندق (احزاب) شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ
627ء )،غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء)،غزوہ بنی
مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ءó جنوری 628ء)،غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی
الحجہ 5ھ (اپریل 627ء )،غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء
) ،غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء )،جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست۔
ستمبر 629ء ) ،غزوہ فتح (فتحِ مکہ) رمضان 8ھ (جنوری 630ء )،غزوہ حنین: شوال
8ھ (جنوری۔ فروری 630ء )،غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء )۔
حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی
مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام یہ ہیں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا،حضرت سودہ رضی
اﷲ عنہابنت زمعہ ،حضرت زینب رضی اﷲ عنہابنت خزیمہ،حضرت ام سلمہ ہندرضی اﷲ
عنہا،حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہابنت حی بن اخطب،حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا بنت
الحارث ،ضرت میموئتہ رضی اﷲ عنہابنت الحارث الہلالیہ: ،حضرت ام حبیبہ رملہ
رضی اﷲ عنہا ،حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہابنت عمر ،حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہابنت ابی
بکر ،حضرت زینب بنت جحش یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت میں رہیں ان
میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکین کی وفات آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہوئی اور نو بیویاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی وفات کے بعد حیات رہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج
سن 10ھ میں کیا اسے حجتہ الوداع کہتے ہیں آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء
) کو مدینہ سے روانہ ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں
مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے احرام
پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی
تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے
اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ ححجتہ الوداع کے نام سے
مشہور ہے اس خطبے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا
دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو
بحیثیت دین پسند کر لیا‘‘ (المائدہ3) اس حج کے تقریباًًً تین ماہ بعد آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کو پیارے ہو گئے حجتہ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا
بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی حضرت علی نے غسل و کفن
دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی
جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ
اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے- |