اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
شان بحثیت معلم بیان کی ہے ۔خود رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے
’’انمابعثت معلما‘‘
(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے )
فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا۔
اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے، استاد کو معلم و
مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔
آپصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’انماانا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلمکم‘‘
(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ
ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘
باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔
’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے
،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘
شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ معلم کی عظمت یوں بیان کرتے ہیں۔
سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا
ہے تو سکندر اعظم نے کہا:
’’میرے والدین مجھے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جبکہ اساتذہ نے مجھے
زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے‘‘
بطلیموس استا دکی شان یوں بیان کرتاہے
’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘‘
جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے تلامذہ اور تربیت یافتگان میں جہاں
مردوں کی بہت بڑی تعداد ہے وہاں بے شمار عورتیں بھی درسگاہ نبویﷺ سے فیض
یاب ہوئی ہیں اور صحابیات رضی اﷲ عنھماکی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے قرآن و
سنت کی تعلیم اور پھر تدریس و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ام المؤمنین
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو تو بطور خاص اسی مقصد کے لیے تعلیم دی گئی تھی
اور ان کی تربیت کی گئی تھی کہ وہ امت کی خواتین کو تعلیم دیں اور ان کی
دینی تربیت کریں۔ انہوں نے عمر کا وہ حصہ جو تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہوتی
ہے ایک بیوی کے طور پر نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں گزارا، وہ 9
سال کی عمر میں حرم نبویﷺ میں آئیں اور اٹھارہ سال کی عمر تک اس سرچشمہ علم
سے استفادہ کرتی رہیں اور پھر کم و بیش نصف صدی تک انہوں نے درسگاہ نبویﷺ
کے اس شعبے کو مسند نشین کی حیثیت سے آباد کیا۔ حضرت عائشہؓ جن علوم میں
دسترس رکھتی تھیں اور جن میں ان سے خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ
مردوں نے بھی فیض حاصل کیا ان میں قرآن و سنت، ادب و شعر، نسب و تاریخ اور
میراث و فرائض کے ساتھ ساتھ طب و علاج کے علوم بھی شامل ہیں۔ ان کے بھانجے
اور شاگرد حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان علوم میں اپنے دور
میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔
حضرت حفصہؓ کے بارے خود جناب نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابیہ حضرت
شفاعدویہؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ انہیں لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اور اسعد بن
زرارہ ؓکی پوتی حضرت عمرہؓ حضرت عائشہؓ کی سیکرٹری کے طور پر خط و کتابت کی
ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھیں۔ یہ وہی عمرہؓ ہیں کہ جب امیر المؤمنین حضرت
عمر بن عبدالعزیزؓ نے احادیث کو باقاعدہ سرکاری طور پر محفوظ کرنے کا فیصلہ
کیا اور اس کے لیے صوبوں کے عمال کو ہدایات جاری کیں تو مدینہ منورہ کے
قاضی کو لکھا کہ حضرت عمرہؓ کے علوم وروایات کو جمع و محفوظ کرنے کا خصوصی
اہتمام کیا جائے اس لیے کہ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے علوم کی وارث
ہیں۔
زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ ،فوج،سیاست ،بیوروکریسی ،صحت
،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے
ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ
صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں
کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری
،بدامنی اور نیراج کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاد کو ایک صالح
معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا
خطاب عطا کیا گیا ہے
اساتذہ دراصل قوم کے محافظ ہیں ،معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور
اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے
ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔معاشرے میں جہاں
ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں
کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں
ساری کائنات کے بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے
روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا
سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔
آج کے ترقی پذیر معاشرے میں جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی خصوصی دن منایا جاتا
ہے وہیں پر ہر سال5اکتوبر کو یوم اساتذہ بھی منایا جاتا ہے ۔ یوم اساتذہ
منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگرکرنا ہے۔ اس دن کی
مناسبت سے دنیا بھرمیں کئی سیمینارز، کانفرنسیں اورتقریبات کا انعقاد کیا
جاتا ہے۔
معاشرے میں ایک استاد کی قدرو منزلت کی اہمیت سے آپ سبھی قارئین شناسا ہیں
تاہم راقم کی کوشش ہے کہ ایک تمہید باندھ کر بات کی جائے تاکہ اس مقدس پیشے
سے منسلک وہ شخصیات جو اس سے ناانصافی کر رہی ہیں انہیں احساس ہو سکے کہ وہ
کس قدر ایک مقدس پیشے سے وابستہ ہو کر اسکی بے توقیری کا باعث بن رہی ہیں ۔
قارئین……!! میں نے آج سے 13ماہ قبل ایک سکول کی حالت زار پر ایک تفصیلی
تحریر لکھی تھی اس تحریر کے بعد آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے ارباب
اختیار نے جس طرح نہ صرف اس سکول بلکہ پورے آزاد کشمیر کے تعلیمی نظام میں
انقلابی تبدیلیاں رونما کیں اس پر میں اُنہیں نہ صرف دادِ تحسین پیش کرتا
ہوں بلکہ جب بھی میرے ہاتھ دعا کیلئے اٹھتے ہیں تو میں انکی کامیابی کیلئے
دعا ضرور کرتا ہوں کیونکہ جس طرح صدر مملکت آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر
وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر
وزیر تعلیم آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر
چیف سیکرٹری آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر
سیکرٹری تعلیم آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر
ان تمام شخصیات نے نظام تعلیم میں اصلاحات کی ہیں انکی نظیر ماضی میں نہیں
ملتی اور شاید مستقبل میں کوئی اتنے مختصر وقت میں اتنی انقلابی تبدیلیاں
لانے میں کامیاب ہو سکے آج آپ دیکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں
میں بائیو میٹرک نظام نافذ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بوگس حاضریوں کے
نظام کی چھٹی ہو چکی ہے اور اب بہت سارے سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضریوں
کی شکایات میں کمی آچکی ہے نہ صرف یہبلکہ موجودہ حکومت نے ان اساتذہ کو جو
جدید نظام تعلیم کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے ان میں سے بہت سوں کو
ریٹائرڈ کیا اور باقی بچ جانے والوں کو گزشتہ سال سمر کیمپ لگا کر ٹریننگ
ورکشاپ کے ذریعے انہیں ٹیچنگ کے نئے معیار کے مطابق خود کو ڈھالنے کا موقع
میسر کیا میں سمجھتا ہوں کہ یہ موجودہ حکومت کے ارباب اقتدار اور خصوصاً
وزیر تعلیم بیرسٹرافتخار گیلانی صاحب کی ذاتی کاوش ہی تھی کہمیں نے مذکورہ
سکول کے حوالے سے جو مسائل بیان کئے کہ وہ چند مہینوں میں حل ہوئے اور
مذکورہ سکول میں زیر تعلیم 450طالبات کا مستقبل محفوظ ہوا۔
قارئین……!! مگر صدافسوس …………!! مذکورہ ’’گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول
کھرل عباسیاں‘‘ میں اس بائیو میٹرک سسٹم نے سکول میں درس و تدریس سے وابستہ
معلمات کو تو پابندی وقت پر مجبور کیا اور اب مذکورہ سکول وقت پر کھلتا اور
بند ہوتا ہے مگر مذکورہ سکول کی پرنسپل صاحب کی گزشتہ ایک سال کی کہانی جسے
صرف دو لفظوں میں بیان کر کے آپ کو اور وزیرتعلیم بیرسٹر سید افتخار گیلانی
صاحب کو چونکا رہا ہوں کہ مذکورہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ 12ماہ میں صرف7دفعہ سکول
میں تشریف لائی ہیں اسی سکول میں ایک خاتون معلمہ ہیں جو کئی سالوں سے کبھی
سکول ہی نہیں آئیں اور جب کبھی انہیں اہل علاقہ نے کہا یا ان کے خلاف کوئی
درخواست گزاری تو انہوں نے دھمکی دے کر انہیں چپ کروادیا کہ میں اپنی پوسٹ
اس سکول سے ختم کروا دوں گی غالباً وہ وہاں پر پی ٹی ماسٹر ہیں حالانکہ
انکا کام ہے صبح اسمبلی کروائیں سکول کے اندر بچیوں کو ان ڈور گیمز سکھائیں
تاکہ انہیں غیر نصابی سرگرمیاں میسر آئیں مگر وہ کئی سالوں سے سکول نہیں
گئیں انکے ساتھ ایک اور خاتون معلمہ ہیں جو بھی کافی عرصہ سے وہاں پر حاضر
نہیں ہیں ماضی میں یہاں ایک ہیڈ کلرک صاحب بھی تعینات تھے ستم ظریفی یہ ہے
کہ مذکورہ ہیڈ کلرک نے ضلع باغ کی انتظامیہ سے مل کر یہاں سے ہیڈ کلرک کی
پوسٹ ختم کروا ئی اور یوں یہاں سے شفٹ ہو گئے اس وقت ایک جونیئر کلرک صاحب
ہیں جو کبھی کبھار سکول آجاتے ہیں ۔
قارئین……!! اگر سکول کی پرنسپل صاحبہ سال کے365دن میں سے صرف7دن تشریف لاتی
ہیں تو اس میں وزیرتعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی صاحب کا کوئی قصور نہیں
علاقہ مکینوں نے کئی بار اسکی شکایت بھی کی ہے سماجی حلقوں نے بھی اس پر
آواز اٹھائی ہے مگر ضلع باغ کے تمام تعلیمی افسران کی ملی بھگت سے اس ادارے
کے ساتھ یہ زیادتی ہو رہی ہے اور اس زیادتی میں وہاں پر تعینات کلرک آفتاب
عباسی بھی شامل ہے مذکورہ کلر ک ہی ان غیر حاضر اساتذہ کو غیر حاضری کے
طریقے بتاتا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ پرنسپل صاحب اکثر تین دو دو ماہ کی
چھٹیوں پر بھی رہتی ہیں جسکی اطلاعات بھی ہیں اور محکمہ کے ارباب اقتدار
انہیں یہ چھٹیاں بھی عطا کر رہے ہیں اتنی نوازشات صرف اسی ادارے کی پرنسپل
صاحبہ اور غیر حاضر سٹاف کیلئے ہی کیوں پھر تو پورے سکول کے سٹاف پر ہی اس
طرح کی نوازشات کر دی جائیں ۔
وزیر تعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی صاحب آپ نے اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا
مگر اس محکمے میں موجود کالی بھیڑیں آپکی ان کاوشوں پر پانی پھیر رہی ہیں
یہاں تک کہ انہی کالی بھیڑوں نے ’’گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول کھرل
عباسیاں‘‘ سے 5سینئر معلمات کا تبادلہ بھی کر دیا ہے اور اب وہاں طالبات
پھر روز بغیر علم حاصل کئے واپس گھر جا رہی ہیں اور اگر حالات یہی رہے تو
مذکورہ سکول میں حصول علم کیلئے آنیوالی طالبات کی تعداد میں کمی واقع
ہوجائے گی جس جگہ یہ گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈ سکول کھرل عباسیاں واقع ہے
اس کے گردو بیش میں بہت غریب گھرانے رہتے ہیں یہ ادارہ انکے لئے ایک جنت سے
کم نہیں مگر محکمے میں موجود چند کالی بھیڑیں آپکے اتنے بڑے وژن کو شدید
نقصان پہنچا رہی ہیں امید ہے آپ ان کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں گے اور
ایسا ایکشن لیں گے کہ آزاد کشمیر کے کسی ادارے میں آئندہ کوئی اس طرح کی
جرات نہیں کر سکے گا۔
آپکی کاوش کے باعث مذکورہ سکول میں اس سال 100کے قریب طالبات کو داخل
کروایا گیا کیونکہ سکول کے تعلیمی نظام میں جدید اصلاحات کے بعد والدین کا
حکومتی سکول پر اعتبار بڑھ گیا تھا یہاں تک کہ لاہور سے راولپنڈی سے بھی
بعد والدین اپنے بچوں کو گاؤں لے آئے اور یہاں داخل کروایا مگر اب وہی
والدین مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں یہ پراپیگنڈا حکومت آزاد ریاست جموں
کشمیر کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو صرف پراپیگنڈا نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ایک
بد انتظامی ہے ۔امید ہے جس طرح ماضی میں اس علاقے کے لوگوں پر آپ نے احسان
عظیم کیا اس بار بھی آپ ضروراحسانِ عظیم کریں گے ۔
|